Maktaba Wahhabi

230 - 257
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قربانی صرف اس وقت ساقط ہو گی جب سفر کر کے اپنے گھر والوں کے پاس پہنچ جائے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہی مروی ہے کہ اگر عمرہ کے بعد وطن لوٹ جائے اور پھر حج کے لیے واپس آئے تو مفرد ہو گا اور قربانی واجب نہ ہو گی،لیکن اگر وطن کے علاوہ کسی دوسری جگہ کا سفر کیا ہے مثال کے طور پر حج اور عمرہ کے دوران مدینہ منورہ،جدہ یا طائف چلا جائے تو اس کا حکم متمتع کا ہو گا۔دلائل کے اعتبار سے یہی رائے زیادہ بہتر اور واضح ہے،اس لیے کہ حج اور عمرہ کے دوران سفر کرنے سے متمتع کا حکم ختم نہیں ہوتا،اور اسے قربانی دینی ہو گی،اس لیے اگر عمرہ کے بعد مدینہ منورہ طائف یاجدہ کا سفر کرتا ہے،تو وہ متمتع ہی رہے گا،مفرد اسی صورت میں ہو گا کہ وطن واپس چلا جائے(جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے)اور پھر میقات سے حج کی نیت کر کے لوٹے،اس لیے کہ وطن واپسی کے بعد عمرہ اور حج کے درمیان کا تعلق ختم ہو جا تا ہے۔لیکن ایک مسلمان کے لیے احتیاط اسی میں ہے کہ وہ قربانی کرے چاہے وطن ہی کیوں نہ واپس چلا گیا ہو،تاکہ اس اختلاف سے بچا جا سکے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے ہے،یا ان لوگوں کی رائے جو یہ کہتے ہیں کہ مسافت قصر تک سفر کرنے سے قربانی ساقط ہو جاتی ہے۔بہتر یہی ہے کہ سنت نبوی کا پورا التزام کیا جائے اور اگر قربانی کی طاقت نہیں رکھتا تو ایام حج میں تین روزے رکھے اور وطن واپسی کے بعد سات روزے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ(جو عمرہ کے ساتھ حج کی نیت کرے وہ حسب استطاعت قربانی کرے)یہ حکم حج تمتع اور حج قران دونوں کے لیے ہے،اس لیے کہ قارن کو متمتع بھی کہا جاتا ہے،جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے۔
Flag Counter