حاجی اس صورت میں متمتع کہلائے گا۔جو رمضان کے بعد(حج کے مہینوں میں)عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوا اور حج کا ارادہ بھی رکھتا ہو،جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص حج قران کی نیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوا اور حج کا انتظار کرتا رہا اور احرام نہیں کھولا تو اسے بھی متمتع کہا جائے گا،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے: "فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ " سورة البقرة:196 پس جو شخص عمرہ کو حج سے ملا کر تمتع کرنا چاہے تو جو میسر آئے قربانی کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قارن کو متمتع بھی کہا جاتا ہے،صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے یہی ثابت ہے۔ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے۔ "تَمَتَّعَ رَسُولُ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِالْعُمْرَةِ إلَى الْحَجِّ" یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ اور حج کی نیت کی کی اور تمتع کیا،حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کی نیت کی تھی۔ لیکن بہت سے فقہاء کے نزدیک متمتع وہ ہے جو عمرہ کے بعد احرام کھول دے اور آٹھویں ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھے۔اور اگر عمرہ و حج کو جمع کر دیتا ہے اور احرام نہیں کھولتا تو وہ قارن ہے۔بہر کیف اگر مسئلہ واضح رہے تو پھر اصطلاحات کی کوئی زیادہ اہمیت باقی نہیں رہتی۔ تو یہ بات واضح ہو گئی کہ متمتع اور قارن کے مسائل ایک جیسےہیں۔دونوں کے اوپر قربانی واجب ہے اور اگر کوئی شخص قربانی کی طاقت نہیں رکھتا تو اسے ایام حج میں تین روزے رکھنے ہوں گے اور سات روزے اپنے ملک واپس جانے کے بعد۔اور دونوں ہی کو متمتع کہا جاتا ہے۔لیکن سعی کے بارے میں دونوں کا حکم بدل جاتا ہے،جمہور علماء کے نزدیک متمتع دوسعی کرے گا۔پہلی سعی عمرہ کے طواف کے ساتھ اور دوسری حج کے طواف کے ساتھ اس لیے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے یہ بات ثابت ہے |