تمتع ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ آخری فیصلہ تھا،چنانچہ جب آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور طواف اور سعی سے فارغ ہو گئے تو حج قران یا حج افراد کرنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ صرف عمرہ کریں،تو لوگوں نے طواف وسعی کیا اور بال کٹوا کر حلال ہو گئے،اور اس طرح یہ بات طے پا گئی کہ حج تمتع افضل ہے اور یہ کہ اگر قارن یا منفرد پہلے عمرہ کی نیت کر لیتا ہے تو وہ متمتع ہو جائے گا،اگر حج افراد یا قران کی نیت کرتا ہے اور اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہیں لاتا ہے تو امر شرعی یہ ہے کہ طواف وسعی اور بال کٹوانے کے بعد حلال ہو جائے گا اور اس کا حج تمتع میں بدل جائے گا،جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا اور فرمایا کہ جو کچھ مجھے اب معلوم ہوا ہے اگر پہلے معلوم ہوا ہوتا تو قربانی کا جانور نہ لاتا اور پہلے عمرہ کی نیت کرتا۔ اگر عمرہ کی نیت سے آنے والا حج کا ارادہ نہیں رکھتا تو اسے معتمر(عمرہ کرنیوالا)کہتے ہیں۔کبھی اسے تمتع(عمرہ اور پھر حج کرنے والا)بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا،لیکن فقہاء کی اصطلاح میں اس کو معتمر ہی کہا جائے گا،اگر اس نے حج کی نیت نہیں کی ہے،بلکہ ماہ شوال یا ذی العقدۃ میں صرف عمرہ کی نیت سےآیا ہے،پھر اپنے ملک کو واپس چلا جائے گا۔ لیکن اگر اس کے بعد مکہ مکرمہ میں حج کی نیت سے ٹھہر جاتا ہے تو متمتع ہو جائے گا،اسی طرح اگر کوئی شخص رمضان یا غیر رمضان میں عمرہ کی نیت سے آیا ہے تو اس کو معتمر کہا جائے گا،اور عمرہ بیت اللہ کی زیارت کو کہتے ہیں۔ |