نے فرمایا:"میرے پاس میرے رب کا فرشتہ آیا اور کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھئے اور کہئے کہ میں حج کے ساتھ عمرہ کا ارادہ بھی کرتا ہوں۔"اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے،اور یہ واقعہ وادی ذی الحلیفہ کا ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز کے بعد احرام کی نیت کی تھی،یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نماز کے بعد احرام کی نیت کرنا افضل ہے۔ جمہور کی یہ رائے اچھی ہے،لیکن احرام کے لیے نماز پڑھنے کے بارے میں کوئی نص صریح یا کوئی صحیح حدیث نہیں پائی جاتی،اس لیے اگر کوئی شخص پڑھتا ہے تو کوئی حرج نہیں۔اور اگر کسی نے وضو کیا،وضو کی سنت کے طور پر دو رکعت نماز پڑھ لی،تو یہی دو رکعتیں احرام کے لیے کافی ہو نگی۔ نسک کی تیسری صورت یہ ہے کہ حج اورعمرہ کی ایک ساتھ نیت کی جائے،ایسی صورت میں حج کرنے والا کہے۔" اللّٰهم لبيك عمرۃ"یا "لبيك اللّٰهم حجًّا وعُمْرَة"یا ایسا کرے کہ میقات پر صرف عمرہ کے لیے تلبیہ کہے اور پھر راستہ میں حج کی بھی نیت کر لے اور طواف کرنے سے پہلے حج کے لیے تلبیہ کہے،اسے حج قران کہتے ہیں،یعنی حج اور عمرہ کو جمع کرنا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں حج قران کی نیت کی تھی جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے خبر دی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں(ھدی)یعنی قربانی کے جانور ساتھ لے گئے تھے۔اس لیے قربانی کا جانور ساتھ لے جانے والے کے لیے یہی افضل ہے۔لیکن اگر کوئی شخص جانور ساتھ نہیں لے گیاہے تو اس کے لیے افضل حج |