اور اس لیے بھی مذکورہ صورت میں زکاۃ کی قضا نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو شخص زکاۃ مانگنے کے لیے آئے آپ نے انہیں توانا وتندرست دیکھا تو فرمایا: "اگر تم دونوں چاہتے ہی ہو تو میں تمھیں دیدوں لیکن یاد رکھو کہ مالدار کے لیے اور کمانے کی طاقت رکھنے والے توانا شخص کے لیے زکاۃ کے مال میں کوئی حصہ نہیں ہے۔" اور اس لیے بھی کہ ہر پہلو سے فقیر کی ضرورت کا جاننا مشکل کام ہے لہٰذا اس کے صرف ظاہری حالات کو دیکھا جائے گا اور اپنے کو فقیر باور کرانے سے اسے زکاۃ دیدی جائے گی۔بشرطیکہ زکاۃ دینے والے کو اس کے برخلاف کوئی بات معلوم نہ ہو اور اگر وہ بظا ہر توانا اور کمانے پر قادر نظر آرہا ہے تو مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں اسے شرعی مسئلہ بھی بتا دیا جائے گا۔ سوال نمبر6: ایک شخص پردیس میں ہے اور وہاں اس کے پیسے چوری ہو گئے کیا ایسے شخص کو زکاۃ دی جا سکتی ہے جبکہ موجودہ دور میں مالی معاملات(یعنی ترسیل زر کے ذرائع)بالکل آسان ہو گئے ہیں؟ جواب: مذکورہ مسئلہ میں ایسا شخص ابن سبیل(مسافر)شمار ہو گا اس لیے اگر وہ اپنی ضرورت کا یا سفر خرچ کے گم یا چوری ہو جانے کا دعوی کرے تو اسے زکاۃ کے مال سے اتنا دیا جا سکتا ہے جس سے وہ اپنے وطن واپس پہنچ سکےبھلے ہی وہ اپنے وطن میں |