خریدو فروخت کے لیے تیار کی گئی زمین اور گاڑی وغیرہ کے حکم میں ہوں گے اور سونے اور چاندی کے اعتبار سے نصاب کو پہنچ جانے پر ان میں اسی حساب سے۔جیسا کہ پہلے مذکور ہو چکا ہے۔زکاۃ واجب ہوگی۔ سوال نمبر5: جس فقیر کو زکاۃ دی جانی چاہیے مختلف وقت میں اس کے فقرو غربت کا اندازہ یکساں نہیں ہوتا۔آخر اس کا معیار کیا ہے؟ اور جب زکاۃ دینے والے پر یہ واضح ہو جائے کہ اس نے زکاۃ غیر مستحق کو دے دی ہے تو کیا وہ دوبارہ زکاۃ نکالے گا؟ جواب: فقیر کو اتنی زکاۃ دی جائے جو اس کے لیے سال بھر کے لیے کافی ہو۔اور زکاۃ دینے والے کو اگر یہ پتہ چل جائے کہ اس نے جسے زکاۃ دی ہے وہ فقیر نہیں ہے تو اس پر قضا نہیں بشرطیکہ زکاۃ لینے والا ظاہر میں فقیر ہو جیسا کہ اس بارے میں صحیح حدیث وارد ہے وہ یہ کہ گزشتہ امتوں میں سے ایک شخص نے کسی کو فقیر سمجھ کر زکاۃ دیا پھر خواب میں دیکھا کہ وہ تو مالدار ہے چنانچہ اس نے کہا:اے اللہ! تیری ہی تعریف ہے میری زکاۃ تو ایک مالدار لے گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کو بیان فرمانے کے بعد اسے برقرار رکھا اور بتایا کہ اس شخص کی زکاۃ قبول ہوگئی۔ اور یہ مقررہ اصول ہے کہ ہم سے پہلی امت کی شریعت ہمارے لیے بھی شریعت ہے جب تک کہ ہماری شریعت گذشتہ شریعت کے خلاف کوئی حکم نہ پیش کردے۔ |