"صدقہ کے ڈر سے الگ الگ مال کو اکٹھا نہ کیا جائے اور یکجا مال کو الگ نہ کیا جائے۔"(صحیح بخاری) لہٰذا کسی کے پاس اگر چالیس بکریاں ہوں اور زکاۃ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے وہ انہیں الگ الگ کردے تو زکاۃ اس سے ساقط نہیں ہو گی بلکہ اللہ کے مقرر کردہ فریضہ کو ساقط کرنے کی حیلہ جوئی کرنے کی وجہ سے وہ گنہگار بھی ہوگا۔ اسی طرح زکاۃ کے ڈر سے الگ الگ مال کو اکٹھا کرنا بھی جائز نہیں مثلاً کسی کے پاس بکریاں یا اونٹ یا گائیں ہوں جو نصاب زکاۃ کو پہنچ گئی ہوں اور وہ انہیں دوسرے کی بکریوں یا ونٹ یا گایوں کے ساتھ ملا دے تاکہ ان دونوں کو کم مقدار میں زکاۃ دینی پڑے یعنی ان دونوں اشخاص کا اپنے اپنے مال کو باہم ملا لینا کسی معقول بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اس وجہ سے ہے کہ زکاۃ کے محصل کے آنے کی صورت میں ان پر کم مقدار میں زکاۃ واجب ہو تو ایسی صورت میں ان سے واجبی زکاۃ ساقط نہیں ہو گی۔بلکہ اس حیلہ کے سبب وہ دو کے دونوں گنہگار ہوں گے اور انہیں پوری زکاۃ نکالنی ہو گی۔ مثلاً ایک شخص کے پاس چالیس بکریاں تھیں اور دوسرے کے پاس ساٹھ بکریاں محصل کے آنے پر دونوں نے اپنی اپنی بکریاں ملا لیں تاکہ زکاۃ میں صرف ایک بکری واجب ہو۔تو ایسا کرنے سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور نہ ہی ان سے باقی واجب ساقط ہو گا کیونکہ یہ حرام حیلہ ہے بلکہ انہیں زکاۃ میں ایک دوسری بکری نکال کر فقراء کو دینی ہوگی اور اس بکری کے پانچ حصوں میں سے دوحصے(5/2)چالیس بکری والے کے ذمہ ہوں گے اور تین حصے(5/3)ساٹھ بکری والے کے ذمہ۔اسی طرح جو بکری انھوں نے محصل کے حوالہ کی ہے وہ بھی اسی حساب سے تقسیم ہو گی۔ساتھ ہی |