صَحِیحٌ، أَو حَدِیثٌ حَسَنٌ، لِأَنَّہٗ قَد یُقَالُ: ھٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحُ الاِسنَادِ ، وَ لَا یَصِحُّ، لِکَونِہٖ شَاذًا، أَو مُعَلَّلًا غَیرَ أَنَّ المُصَنَّفَ المُعتَمَدَ مِنھُم، إِذَا اقتَصَرَ عَلٰی قَولِہٖ: إِنَّہٗ صَحِیحُ الاِسنَادِ، وَ لَم یَذکُر لَہٗ عِلَّۃً ، وَ لَم یَقدَح فِیہِ۔ فَالظَّاھِرُ مِنہُ الحُکمُ لَہٗ، بِأَنَّہٗ صَحِیحٌ فِی نَفسِہٖ، لِأَنَّ عَدمَ العِلَّۃِ ، وَالقَدحِ ، ھُوَ الأَصلُ ، وَالظَّاھِرُ (وَاللّٰہُ أَعلَمُ) )) یعنی محدثین کا یہ کہنا کہ یہ حدیث ’’صحِیحُ الاِسنَاد‘‘ یا ’’حَسَنُ الاِسنَاد‘‘ ہے۔ یہ ان کے اس قول سے کم درجہ ہے کہ ’’یہ حدیث صحیح ہے‘‘ یا ’’یہ حدیث حسن ہے‘‘۔ کیونکہ بعض دفعہ کہا جاتا ہے: کہ یہ حدیث صَحِیحُ الاِسنَادِہے اور درحقیقت بوجہِ ’’شاذ‘‘ یا ’’معلل‘‘ ہونے کے حدیث صحیح نہیں ہوتی۔ ہاں معتمد مصنف ’’صحِیحُ الاِسنَاد‘‘ کہہ کر کوئی علت اور عیب ذکر نہ کرے، تو ظاہر یہی ہے کہ اس کا یہ حکم حدیث کی صحت کی بابت ہے۔ کیونکہ اصل اور ظاہر یہی ہے کہ کوئی علت اور عیب نہیں۔ ورنہ وہ ذکر کرتا ہے۔ اس عبارت سے اوپر کی دونوں باتیں اچھی طرح واضح ہو گئیں۔ کیونکہ اسناد پر ’’صحت‘‘ یا ’’حسن‘‘ کے حکم لگانے کی بابت کہا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حدیث صحیح ہے اور جب براہ راست حدیث پر ’’صحت‘‘ یا ’’حسن‘‘ کا حکم لگایا جائے تو یہ حدیث کے’’ صحیح‘‘ یا ’’حسن‘‘ ہونے کی تنصیص اور تصریح ہے اور ظاہر کا درجہ تنصیص سے کم ہے۔ کیونکہ ظاہر میں کچھ احتمال رہتا ہے۔ جیسے یہاں احتمال ہے کہ شاید شذوذ وغیرہ کا کوئی احتمال ہو۔ بر خلاف تنصیص اور تصریح کے کہ اس میں اس قسم کی گنجائش نہیں۔ا ور باوجود درجہ کم ہونے کے ظاہر پر بالاتفاق عمل ہوتا ہے۔ صرف اتنی بات ہے کہ جب ظاہر کا اور تنصیص کا مقابلہ ہو جائے، تو پھر ظاہر پر عمل نہیں رہتا۔ جیسے ’’صحِیحُ الاِسنَاد‘‘کہنے سے۔ اگرچہ صحتِ حدیث ظاہر ہوتی ہے، لیکن جب ’’صحِیحُ الاِسنَاد‘‘کہنے کے بعد محدِّث کسی عیب کی تنصیص اور تصریح کردے، تو پھر اس تنصیص اور تصریح پر عمل ہو گا۔ ظاہر پر عمل نہیں ہو گا۔ یعنی یہ حدیث صحیح نہیں سمجھی جائے گی۔ اگر یہ تنصیص اور تصریح نہ ہو تو پھر ظاہر پر عمل ہو گا۔ یعنی حدیث صحیح سمجھی جائے گی ۔ یہ تو ایک عام قاعدہ کا بیان تھا۔ اب اس اسناد کا حال سنیے، جس کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ نے صحیح کہا ہے: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’طبقات المدلسین‘‘(ص:۲) میں مدلسین کے پانچ مراتب ذکر کیے ہیں۔ (مدلس اس راوی کو کہتے ہیں، جو اپنے ملاقاتی سے ایسے صیغہ کے ساتھ روایت کرے، جس سے سماع کا وہم ہو |
Book Name | فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) |
Writer | حافظ ثناء اللہ مدنی |
Publisher | مکتبہ انصار السنۃ النبویۃ ،لاہور |
Publish Year | 2016 |
Translator | |
Volume | 2 |
Number of Pages | 829 |
Introduction |