Maktaba Wahhabi

547 - 829
فِی ذٰلِکَ)) مسئلہ ہذا پر ہمارے مربی اوّل شیخ مجتہد العصر محدث روپڑی رحمہ اللہ نے نہایت محققانہ، محدثانہ، فقیہانہ انداز میں گفتگو فرمائی ہے۔ بحث اگرچہ طویل ہے لیکن فوائد و ثمرات سے بھر پور اور علمی ترقی و اضافہ کی موجب ہے۔ لہٰذا بعینہٖ ان کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں۔ سجدہ میں رفع یدین کی احادیث شبہ سے خالی نہیں۔ جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ اصولِ حدیث میں لکھا ہے کہ اگر کوئی محدث ’’اسنَادُہٗ صَحِیحٌ ‘‘کہے تو اس سے صحتِ حدیث ثابت نہیں ہوتی۔ہاں اگر ’’اسنَادُہٗ صَحِیحٌ ‘‘ کہہ کر اس کے بعد کوئی جرح ذکر نہ کرے، تو یہ صحت حدیث پر دلالت ہوگی، کیونکہ اگر کوئی جرح ہوتی تو وہ سکوت نہ کرتا۔ ’’الفیہ‘‘ عراقی میں ہے: أَلحُکمُ لِلاِسنَادِ بِالصِّحَّۃِ أَو بِالحَسَنِ دُونَ الحُکمِ لِلمَتنِ رَأَو وَ أَقبَلَہٗ أَن یُطلِقَہٗ مَن یَّعتَمِدُ وَ لَم یُعَقِّبہُ بِضُعفٍ یُنتَقَدُ یعنی اسناد کے صحیح یا حسن ہونے کا حکم متن کے صحیح یا حسن ہونے کو نہیں چاہتا۔ ہاں (مُعتَمَدعَلَیہِ مُحَدِّث)اسناد پر صحیح یا حسن ہونے کا حکم کرے اور اس کے بعد کوئی ضعف بیان نہ کرے جس سے متن کی تنقید ہو، تو اس صورت میں متن بھی صحیح ہو گا۔ اس عبارت کا مطلب اگرچہ بعض نے اتنا ہی بیان کیا ہے، مگر اصل یہ ہے کہ اس عبارت سے دو باتیں مفہوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ متن پر صحت یا حسن کا حکم لگانا یہ حدیث کے صحیح یا حسن ہونے کا کم درجہ ہے، کیونکہ اسناد پر حکم لگانے کی صورت میں یہ احتمال رہتا ہے کہ شاید اس میں شذو ذ یا علت وغیرہ ہو۔ (شذوذ کا مطلب ہے کہ ثقہ راوی اپنے سے زیادہ ثقہ کی یا کئی ثقوں کی مخالفت کرے اور علتِ پوشیدہ، عیب کو کہتے ہیں جس پر ہر ایک مطلع نہیں ہو سکتا۔ بلکہ بڑے بڑے محدثین مطلع ہو تے ہیں) گویا اس احتمال کی بناء پر یہ حکم لگانے سے حدیث کی صحت یا حسن اس درجہ کی نہیں سمجھی جاتی، جس درجہ کی متن پر حکم لگانے سے سمجھی جاتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ کمتر درجہ معتبر ہے، لیکن اس شرط پر کہ اسناد پر صحت یا حسن کا حکم لگانے کے بعد محدث سکوت کرے اور اس میں شذوذ و علت وغیرہ بیان نہ کرے۔ جو ضعف حدیث کا باعث ہو۔ یہ مطلب ’’مقدمہ ابن صلاح‘‘ کی عبارت سے اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے۔ ’’مقدمہ ابن صلاح‘‘ کی نوع ثانیہ :۱۶ میں ہے: (( قَولُھُم ھٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحُ الاِسنَادِ، أَو حَسَنُ الاِسنَادِ دُونَ قَولِھِم ھٰذَا حَدِیثٌ
Flag Counter