دوسری روایت میں ہے کہ پھر کچھ دیر ٹھہرتے یہاں تک کہ موذن صبح کی پہلی اذان دیتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت (صبح سے پہلے کی سنت) ادا فرماتے تھے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث ِمذکورہ بالا میں الاول، اولیٰ سے مراد صبح کی وہ اذان ہے جو فجر کا وقت شروع ہونے پر دی جاتی ہے نماز کی دعوت دینے کے لئے۔ اس سے مراد ہرگز وہ اذان نہیں ہے جو وقت فجر کے داخل ہونے سے پندرہ بیس منٹ قبل دی جاتی تھی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کے داخل ہونے سے پہلے کی اذان کے بعد دو رکعت (فجر کی سنت) نہیں پڑھتے تھے اور نہ دائیں کروٹ اس کے بعد لیٹتے تھے، بلکہ یہ دوگانہ اذانِ فجر کے بعد پڑھتے تھے اور اس کے بعد دائیں کروٹ لیٹا کرتے تھے۔ چنانچہ حدیث ِعائشہ رضی اللہ عنہ میں بالاولی من صلاۃ الفجر اور بلال رضی اللہ عنہ کی روایت میں و یؤذن لصلاۃ الفجر اور انس رضی اللہ عنہ والی حدیث میں التثویب فی صلاۃ الغداۃ کے الفاظ بڑی زبردست دلیل ہیں کہ اولیٰ سے مراد وہ اذان ہے جو فجر کے وقت کے داخل ہونے پر دی جاتی ہے۔ لفظ ’’من‘‘بیانیہ ہے جو اس بات کا مکمل بیان ہے کہ اذانِ اول، مناداۃِ اولیٰ سے مراد صبح کی اذان اور فجر کی اذان ہے۔ اس طرح علامہ شیخ البانی رحمہ اللہ ، علامہ صنعانی رحمہ اللہ اور علامہ ابن رسلان رحمہ اللہ کی دلیل مرجوح قرار پاتی ہے کہ الصلاۃ خیر من النوم نمازِ فجر کے وقت کے داخل ہونے سے پہلے کی اذان میں کہنا چاہئے۔ اس طرح ان حضرات کا یہ قول شاذ سمجھا جائے اور یہ قول کہ اذانِ فجر میں الصلاۃ خیر من النوم کہنا بدعت ہے، اس سے بھی زیادہ شاذ اور عجیب بات ہے۔ یاد رہے کہ اذان کا اطلاق، اقامت و تکبیر کے لئے متعدد احادیث میں ثابت ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ((قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : بَیْنَ کُلِّ أَذَانَیْنِ صَلاَۃٌ، بَیْنَ کُلِّ أَذَانَیْنِ صَلاَۃٌ، ثُمَّ قَالَ فِی الثَّالِثَۃِ: لِمَنْ شَائَ)) [1] ’’ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ دو اذانوں کے درمیان نماز (نفل) مشروع و مسنون ہے۔ پھر تیسری بار فرمایا کہ یہ مستحب ہے جو چاہے پڑھ لے اور جونہ پڑھے، کوئی حرج کی بات نہیں۔‘‘ اس طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ والی سابقہ حدیث میں ’’ورکعتین بین الندائین‘‘[2] اور دونوں اذانوں |
Book Name | فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) |
Writer | حافظ ثناء اللہ مدنی |
Publisher | مکتبہ انصار السنۃ النبویۃ ،لاہور |
Publish Year | 2016 |
Translator | |
Volume | 2 |
Number of Pages | 829 |
Introduction |