Maktaba Wahhabi

19 - 180
’’ کہ بندوں میں ہنسنے ،رونے کا مادہ اور ان کے اسباب بھی اسی نے پیدا کیے ہیں۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر5۔254) سید ابوالاعلی مودودی فرماتے ہیں: یعنی خوشی اور غمی دونوں کے اسباب اس کی طرف سے ہیں، اچھی اور بری قسمت کا رشتہ اس کے ہاتھ میں ہے ، کسی کو اگر راحت ومسرت نصیب ہوئی ہے تو اسی کے دینے سے ہوئی ہے اور کسی کو مصائب وآلام سے سابقہ پیش آیا ہے تو اسی کی مثیت سے پیش آیا ہے کوئی دوسری ہستی اس کائنات میں اسی نہیں جو قسمتوں کے بنانے اور بگاڑنے میں کسی قسم کا دخل رکھتی ہو۔ (تفہیم القرآن از مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی:5۔220) یوں اندازہ ہوسکتا ہے کہ خود اللہ رب العزت نے بھی انسانی زندگی کے تغیرات میں خوش طبعی کا پہلو رکھا ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا کہ کہ ’’مزاح کبھی کبھار ہو تو یہ سنت ہے لیکن اس کو عادت ہی بنا لینا یہ ٹھیک نہیں۔‘‘ (احیاء علوم الدین) وجہ یہی ہے کہ زیادہ ہنسی دل کو مردہ کردیتی ہے اور انسان کی شخصیت دوسروں کی نظر سے اپنا وقار کھودیتی ہے ۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ زیادہ مزاح سے بھی گریز کرنا چاہیے ۔مزاح وہی اچھا ہوتا ہے جو ایک حد تک ہو۔ اسی طرح یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ مزاح میں دوسرے انسان کی دل شکنی نہ ہو اور نہ قہقہہ ۔ ہاں تبسم اور مسکراہٹ سنت بھی ہے اور راحت بھی۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ’’بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے گھل مل کر رہتے۔ یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی سے کہتے: ’’ابوعمیر! بلبل کو کیا ہوا؟ ابو عمیر کی ایک بلبل تھی جس کے ساتھ وہ کھیلا کرتا تھا اور وہ مرگئی تھی۔‘‘ (بخاری ومسلم)
Flag Counter