( وقف کنندہ عاقل ،بالغ اور آزاد ہو۔ ( وقف کے وقت شیئ موقوفہ کا مالک ہو۔ ( وقف کردہ چیز ہر قسم کے بار کفالت سے مبرا ہو۔ ( وقف کردہ چیز کو موقوف علیہ کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔ ( وقف کا اعلان نیک نیتی اورحقیقی ارادے کے ساتھ ہو، اس میں کسی وارث کونقصان پہنچانا مقصود نہ ہو۔ جب ان شرائط کے مطابق وقف مکمل ہوجائے تو پھر وقف شدہ چیز کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے نہ تو فروخت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی اور کو ھبہ یا وراثت میں دیا جاسکتاہے۔جیسا کہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔(صحیح البخاری:2737) اس طرح وقف کے بعد اگر کوئی وارث وقف شدہ چیز کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے فروخت کرتا ہے تو اس فروختگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ حدیث کے مطابق یہ ظالمانہ تصرف ہے جسے شریعت نے غیر معتبر ٹھہرایا ہے۔(صحیح البخاری المزار ع 2335) حدیث میں اس قسم کے تصرف کو عرق ظالم سے تعبیر کیاگیا ہے۔جس کی وضاحت راوی حدیث حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ کی ہے کہ آدمی کسی دوسرے کی زمین میں ناجائز تصرف کرکے اس کا مالک بن بیٹھے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تفسیر یوں کی کہ حق کے بغیر کسی قسم کا استفادہ کرنا عرق ظالم ہے۔(ابو داؤد :الامارۃ 3078) صورت مسئولہ میں ازروئے قانون وقف کی شرائط کا لحاظ نہیں رکھا گیا اور نہ ہی وقف کرتے وقت اپنی اولاد کو اعتماد میں لیا گیاہے۔وقف کنندہ کو چاہیے تھا کہ وہ قطعہ ارضی مسجد کی انتظامیہ کے حوالے کردیتا، پھر اس کے قانونی تقاضے پورے کرکے مسجد کے نام رجسٹری کرادیتا یا کم از کم اپنی اولاد کو اس سے آگاہ کرکے انہیں اعتماد میں لے لیتا، تاہم اس کے بیٹے نے زبانی وقف شدہ ارضی کودانستہ اور ٖغیر د انستہ طور پر آگے فروخت کردیا اور اس کی رقم وصو ل کرکے اس قطعہ ارضی کو خریدار کے نام رجسٹری بھی کرادی ہے۔ اس میں خریدار کا کوئی قصور نہیں ہے۔ لیکن انتظامیہ مسجد کے تنازعہ کے پیش نظر پنچائتی فیصلہ ہوا کہ خریدار اس قطعہ ارضی سے نو مرلے زمین مسجد کو دے گا۔ اور اس پر وضو خانہ اور باتھ وغیرہ تعمیر کرائے گا اور فریقین نے نہ صرف اس فیصلے کو قبول کیا بلکہ حسب وضاحت بالا اس پر عمل درآمد بھی ہوگیا، اب انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ دوبارہ اس تنازعہ کو نہ اٹھائیں بلکہ اس فیصلے کو قبول کرکے باہمی اتفاق ویگانگت کی فضا پیداکریں۔حدیث میں ہے کہ مسلمانوں کو اپنی طے شدہ شرائط کی پاسداری کرنا چاہیے، اس بنا پر اہل مسجد اب مسجد کی آبادی کےلئے خلوص کے ساتھ کوشش کریں اور اس قسم کےتنازعات سے باہمی نفرت کی فضا پید ا نہ کریں۔هذا ما عندي واللّٰه اعلم بالصواب سوال۔پیر محل سے حافظ عبداللطیف لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک مسجد تقریباً تیس سال قبل تعمیر ہوئی تھی۔مسجد کےپلاٹ کی جب بولی ہوئی تو اس وقت تین جماعتی احباب پیش پیش تھے۔ ان میں عبدالغنی جٹ کے نام مسجد کا پلاٹ الاٹ کیا گیا تھا۔ پلاٹ چونکہ وقف نہ تھا، اس لیے عبد الغنی کی وفات کے بعد اس کی اولاد کے نام منتقل ہوگیا، اب جن کے نام انتقال ہوا ہے ان میں سے |