جو کسی کی وراثت کو ختم کرتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی ہےاللہ تعالیٰ جنت میں ا س کی وراثت کو ختم کردیں گے۔''(شعب الایمان، امام بیہقی :14/115) اس حدیث کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو یہ حق نہیں دیا کہ اس کے بیان کردہ ضابطہ ور اثت کی خلاف ورزی کرکے صرف ایک وارث کے نام اپنی تمام جائیداد لگوادے۔بیٹیوں کو چاہیے کہ وہ محکمہ مال کے ہاں پیش ہوکر اپنے نام جائیداد کے انتقال کو ختم کرائیں۔پھر مندرجہ ذیل وضاحت کے مطابق ازسر نو تقسیم کریں۔چونکہ متوفی کی اولاد موجود ہے،اس لئے بیوی کو تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد سے آٹھواں حصہ ملے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اگر تمہاری اولاد ہے تو بیویوں کو تمہارے مال متروکہ میں سے آٹھواں حصہ ملے گا۔''(4/النساء:13) بیٹیوں کو متوفی کی جائیداد سے دو تہائی ملتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا اشاد ہے:'' اگر لڑکیاں وو سے زیادہ ہوں تو انہیں ترکہ کی دو تہائی ملتی ہے۔''(4/النساء:11) بہنیں، بیٹیوں کی موجودگی میں عصبہ بن جاتی ہیں اور انہیں مقررہ حصہ لینے والوں سے بچا ہوا حصہ ملتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے کہ آپ نے بیٹی کو نصف ، پوتی کو چھٹا اور باقی ایک تہائی بہن کودیا۔(صحیح بخاری :6742) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس فیصلہ پر بایں طور پر عنوان بندی کی ہے:''بیٹیوں کے ساتھ بہنوں کی وراثت بطور عصبہ ہے۔'' بہنیں، بھائی کی طرح ہیں ،لہذا ان کی موجودگی میں بھتیجے، بھتیجیاں محروم ہیں۔کل جائیداد کے چوبیس حصے کیے جائیں، جن میں سولہ تین بیٹیوں کو، تین بیوی کو اور باقی پانچ تین بہنوں کو دے دیئے جائیں۔ سہولت کے پیش نظر جائیداد کو 72 حصوں میں تقسیم کردیاجائے۔ان سے سولہ، سولہ حصے فی لڑکی ،نو حصے بیوی اور پانچ پانچ حصے فی بہن دے دیئے جائیں، یعنی اڑتالیس حصے بیٹیوں کے، نوحصے بیوی کے اور پندرہ بہنوں کے ہوں گے۔بھتیجے اور بھتیجیاں متوفی کی جائیداد سے محروم ہیں ،اس طرح متوفی کو بھی اخروی نجات مل سکتی ہے۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔کسی نامعلوم شخص نے سوال بھیجا ہے کہ ہم تین بھائیوں نے اپنےوالد محترم کے ساتھ مل کر ایک قطعہ زمین خریدا تھا ،ہمارا چوتھا بھائی عرصہ سے بالکل الگ تھلگ رہتاہے اور اس نے مذکورہ زمین کی خریداری میں کوئی پائی پیسہ بھی نہیں دیا تھا۔ وہ بھی اس قطعہ زمین سے حصہ لینے کا دعویدار ہے۔وفات کے بعد شرعی طور پر ا س زمین میں اس کا کتنا حصہ بنتا ہے۔نیز ہماری د و بہنوں اور والدہ کاحصہ بھی بتادیں؟ جواب۔باپ کے پاس رہنے والی اولاد کی کمائی باپ کی ہی شما رہوتی ہے، الا یہ کہ اولاد کا الگ حق ملکیت تسلیم کرلیا جائے۔صورت مسئولہ میں قطعہ زمین خریدتے وقت تینوں بیٹے باپ کے ساتھ شراکت کے طور پر حصہ دار بنے ہیں۔ یعنی ان کا الگ حق ملکیت تسلیم کرلیا گیا ہے۔ ایسی صورت حال کے پیش نظر اگر باپ کو ضرورت ہوتو وہ قطعہ زمین اپنے لئے رکھ سکتا ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے ''تو اور تیرا مال باپ کے لئے ہے''لیکن باپ کی طرف سے اس قسم کی ضرورت کا اظہار کیے بغیر بھائی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس حدیث کی آڑ میں پورے قطعہ زمین میں سے اپنا حق لینے کا دعویٰ کرے۔وہ صرف اتنے حصے میں شریک ہوگا جو باپ کا حصہ |