جواب۔جس ذات اقدس نے قرآن مجید خاموشی سے سننا فرض قرار دیا ہے، اسی ذات باری تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے یہ حکم دیا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔(صحیح بخاری)دوران جماعت جب امام باآواز بلند قراءت کررہا ہو تب بھی یہی حکم ہے جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' جب میں اونچی آواز سے قراءت کروں تو(میرے پیچھے) سورہ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھا کرو۔''(دارقطنی :ج 1 ص 319) جو حضرات امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے سے منع کرتے ہیں آخر وہ بھی امام کی قراءت کے دوران کچھ پڑھنے کی گنجائش نکال لیتے ہیں۔جیسا کہ بوقت قراءت جماعت میں شامل ہونے والے کے لئے تکبیر تحریمہ اوردعائے استفتاح یعنی سبحانك اللهم وبحمدك پڑھنے کا جواز ان کے ہاں بھی مسلم ہے۔ اس بنا پر امام کے پیچھے سورۃفاتحہ پڑھنا اس ''انصات'' کے خلاف نہیں ہےجس کا اللہ تبارک وتعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اور نہ ہی حدیث اور قرآن میں کوئی قضا ہے۔لہذا ہمیں قرآن کا سہارا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا ایمان کے منافی ہے۔باقی رہا مسئلہ کہ جب صبح کی نماز کھڑی ہوتو ایک طرف کھڑے ہوکر صبح کی سنتیں ادا کرنا تو یہ بھی حدیث کے خلا ف ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب فرض نماز کے لئے اقامت ہوجائے تو اس وقت فرض نماز کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں ہوتی۔(صحیح مسلم) اس حدیث سے ثابت ہو ا کہ جب فرض نماز کی ادائیگی کے لئے تکبیر کہہ دی جائے تو اس وقت سنت ادا کرنا جائز نہیں ہے۔اس حکم میں صبح کی سنتیں بھی شامل ہیں۔ اس لئے مسجد کے کونے سے یا ستون کے پیچھے یا مسجد کے باہردروازے کے پاس کسی جگہ پر انہیں ادا کرنا درست نہیں بلکہ جماعت میں شامل ہوکر فراغت کے بعد فوت شدہ سنتوں کو ادا کیا جائے۔اس کا جواز احادیث سے ملتا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ دوران جماعت سنتیں پڑھنے والوں کو سزا دیا کرتے تھے جیسا کہ محدثین کرام نے وضاحت کی ہے۔(معالم السنن :ج8 ،ص 77) سوال۔سیالکوٹ سے مشتاق احمدلکھتے ہیں کہ کیاظہر کے وقت عصر کی نماز پڑھی جاسکتی ہےجبکہ سفر پرجاناہو، اگر مسافرعصرکے وقت اپنی منزل پر پہنچ جائے تو کیا ظہر کے ساتھ ادا کی ہوئی نماز عصردوبارہ پڑھناہوگی، وضاحت سے لکھیں۔ جواب۔واضح رہے کہ محدثین کرام کی اصطلاح میں پہلی نماز کے وقت میں دوسری نمازاداکرنا جمع تقدیم اور دوسری نماز کے وقت میں پہلی نمازادا کرناجمع تاخیر کہلاتاہے۔دوران سفردونوں طریقوں سے نمازوں کو جمع کیا جاسکتاہے۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے سفر میں اگرکوچ سورج ڈھلنے کے بعد ہوتا تو ظہر کے وقت بھی عصر پڑھ لیتے، پھر اپنے سفر کا آغازکرتے اور اگر سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو نماز ظہر کو مؤخر کرکے عصر کے ساتھ اداکرتے ،اس طرح مغرب اور عشاء کی ادائیگی میں کرتے تھے۔(سنن ابی داؤد،سنن ترمذی) سفر کے علاوہ بارش بیماری یا کسی اہم ضرورت کے پیش نظر بھی جمع تقدیم یا جمع تاخیر کی جاسکتی ہے۔اگر جمع تقدیم میں پہلی نماز کے وقت میں دوسری نمازاداکرلی ہے تو سفر یا بارش کا عذر ختم ہونے کے بعددوسری نماز کاوقت باقی ہو تو اداشدہ نماز کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔(مغنی ابن قدامہ :ج2ص 281) |