پراگندہ رہنے والی کنگھی وغیرہ کر لے۔"[1]
تو آپ علیہ السلام نے یہ حکمت بیان فرمائی ہے کہ اچانک تیاری کا موقع دیے بغیر اہلیہ کے پاس جانا مکروہ ہے۔ہاں اگر آمد سے پہلے اپنے آنے کی اطلاع دے دے اور متعین کر دے کہ فلاں وقت میں پہنچوں گا تو اس صورت میں وہ جس وقت بھی آئے جائز ہو گا،اسے اچانک داخل ہونے والا نہیں سمجھا جائے گا۔(مجلس افتاء)
سوال:ایک عورت جس کی عمر انتیس سال ہے،تقریبا دس بچوں کو جنم دے چکی ہے۔آخری بچوں کی ولادت آپریشن سے ہوئی ہے۔اب اس نے آپریشن سے پہلے اپنے شوہر سے اجازت چاہی ہے کہ کمزوری صحت کے پیش نظر نس بندی کرا لے تاکہ آئندہ کے لیے ولادت کا سلسلہ منقطع ہو جائے،اور شوہر نے بھی اس کی اجازت دے دی ہے۔اگر یہ مانع حمل گولیاں استعمال کرے تو اس کے لیے مضر پڑتی ہیں۔کیا اس صورت میں نس بندی کرا لینے میں اس پر یا اس کے شوہر پر کوئی گناہ ہے؟
جواب:اگر ڈاکٹروں نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ اس عورت کے لیے مزید ولادت نقصان دہ ہے اور شوہر بھی اس کی اجازت دیتا ہے تو اس نس بندی میں کوئی حرج نہیں ہے۔(عبدالعزیز بن باز)
سوال:عزل کا کیا حکم ہے؟
جواب:عزل کے بارے میں کم از کم جو کہا جا سکتا ہے یہی ہے کہ یہ مکروہ اور ناپسندیدہ عمل ہے۔مکروہ کے بارے میں علماء کے اقوال میں یہ ہے کہ اس میں ایک پہلو جائز ہونے کا بھی ہوتا ہے۔یعنی بعض اوقات ایک کام جائز ہوتے ہوئے بھی مکروہ یعنی ناپسندیدہ ہوتا ہے۔
عزل کے جائز ہونے کی دلیل حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جو صحیح بخاری و مسلم میں مروی ہے،کہتے ہیں کہ "ہم عزل کیا کرتے تھے جبکہ قرآن نازل ہو رہا تھا۔" [2] اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہم یہ کام کرتے تھے اور قرآن کریم میں اس کے بارے میں منع کا کوئی حکم نازل نہیں کیا گیا۔اس سے معلوم ہوا کہ یہ جائز ہے۔مگر اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ یہ مکروہ اور ناپسندیدہ ہے۔یہ بات ہمیں آپ علیہ السلام کے ان ارشادات سے معلوم ہوتی ہے جو آپ نے بیان فرمائے:
|