"تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُباه بِكُمُ الْأُمَمَ يَوْم الْقِيَامَة[1] وفى لفظ۔مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"[2]
"محبت کرنے والی۔زیادہ بچے جنم دینے والی عورتوں سے شادیاں کرو،بلاشبہ میں قیامت کے دن تمہاری کثرت سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔"
تو جو آدمی اپنی اہلیہ سے عزل کرتا ہے یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رغبت اور شوق کے خلاف کرتا ہے،اور جو حکومتیں تحدید نسل یا خاندانی منصوبہ بندی وغیرہ کے نام سے مختلف پروگرام چلا رہی ہیں،یہ سب نبی علیہ السلام کی ایک بڑی رغبت اور شوق کے برخلاف ہیں کہ آپ کثرت امت پر فخر کریں گے۔دوسرے یہ عمل سراسر مغرب کی تقلید ہے جس میں ایک مسلمان،بچوں کی تربیت کے ایک عظیم اجر سے محروم ہو جاتا ہے۔فرمایا:
" إذا مات ابن آدم انقطع عمله إلا من ثلاث:صدقة جارية،أو علم ينتفع به،أو ولد صالح يدعو له"
"ابن آدم جب فوت ہو جاتا ہے تو سوائے تین صورتوں کے اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔کوئی جاری رہنے والا صدقہ،یا نفع آور علم،یا نیک صالح بچہ جو اس کے لیے دعا کرتا رہے۔"[3]
اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
" ما من المسلمين يموت لهما ثلاثة من الولد الا لم تمسه النار الا تحلة القسم"
"نہیں کوئی دو مسلمان میاں بیوی کہ ان کے تین بچے ہو جائیں تو انہیں آگ چھوئے،سوائے قسم پوری ہونے کے۔"[4]
|