بیویوں کے سامنے نہیں آتے ہیں،کیا اس بات کی کوئی شرعی بنیاد بھی ہے؟ [1]
جواب:یہ باتیں جو ذکر کی گئی ہیں ان کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے،اور رسم و رواج کو دین سمجھ کر ان کی پابندی کرنا بدعت ہے،چاہیے کہ انہیں ترک کیا جائے۔ہاں اس قدر ضرور ہے کہ آدمی جب لمبے سفر سے کافی دنوں کے بعد واپس آ رہا ہو تو رات کو اچانک اپنی اہلیہ کے پاس نہ آئے اور نہ اچانک دھوکے سے گھر میں داخل ہو،کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس سے کوئی ایسی چیز پائے جو ناپسندیدہ ہو اور پھر وہ اس کے لیے نفرت کا باعث بن جائے۔بلکہ مہلت دے حتیٰ کہ بیوی کو شوہر کی آمد کی اطلاع ہو جائے اور پھر وہ اس کے استقبال کے لیے تیار بھی ہو سکے۔یہ امور میاں بیوی کے مابین حسن معاشرت کے آداب میں سے ہیں،بلکہ ان کے مابین خیر و صلاح کے ضامن ہیں۔صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی کو رات کے وقت اپنے گھر آنے سے منع فرمایا ہے [2] اور یہ بھی فرمایا ہے کہ:
"إذا طال أحدكم الغيبة۔ فلا يطرق أهله ليلاً"
"جب تم میں کوئی لمبی مدت کے بعد واپس آئے تو رات کے وقت اپنے گھر والوں کے ہاں مت آئے۔" [3]
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إذا دخلت ليلا فلا تدخل على أهلك حتى تستحد المغيبة وتمتشط الشعثة"
"جب تو رات کو پہنچے تو اپنی اہلیہ پر مت داخل ہو حتیٰ کہ غائب سمجھنے والی استرا استعمال کر لے اور
|