کے پیچھے صفیں بناتی تھیں۔اور آپ کا یہ فرمان بھی ہے کہ "اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے مت روکو" [1]
اور یہ بھی فرمان ہے کہ:"مردوں کی بہترین صفیں وہ ہیں جو شروع میں ہوتی ہیں اور کم درجہ وہ ہیں جو آخر میں ہوتی ہیں،اور عورتوں کی افضل صفیں وہ ہیں جو آخر میں اور پیچھے ہوتی ہیں اور کم درجہ وہ ہیں جو شروع میں ہوں۔"[2] (مجلس افتاء)
سوال:کیا عورت نماز جمعہ پڑھ لے تو ظہر کی نماز اس سے ساقط ہو جاتی ہے؟
جواب:جب کسی عورت نے امام جمعہ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھی ہو تو یہ اس کے لیے نماز ظہر سے کافی ہے۔اسے اس دن کی ظہر کی نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔لیکن اگر وہ اکیلی نماز پڑھے تو اسے صرف ظہر پڑھنا ہو گی،جمعہ نہیں پڑھ سکتی۔(مجلس افتاء)
سوال:عورت کے لیے نماز جمعہ کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ مردوں کی نماز کے بعد پڑھے یا پہلے یا ان کے ساتھ مل کر؟
جواب:عورت کے لیے نماز جمعہ واجب نہیں ہے،لیکن اگر وہ امام جمعہ کے ساتھ ادا کرے تو بالکل بجا اور صحیح ہے۔لیکن اگر وہ اپنے گھر میں پڑھتی ہے تو ظہر کی چار رکعت ہی پڑھے گی،اور یہ نماز کا وقت ہو جانے کے بعد ہی پڑھ سکتی ہے،یعنی سورج ڈھلنے کے بعد،اور اکیلی جمعہ نہیں پڑھ سکتی۔(مجلس افتاء)
سوال:جو شخص نماز جمعہ میں تشہد میں آ کر ملا ہو،کیا اس نے جمعہ پا لیا یا وہ ظہر کی نماز پڑھے؟
جواب:جمہور علماء کے نزدیک جمعہ پانے کے لیے کم از کم یہ ہے کہ آدمی امام کو دوسری رکعت کے رکوع میں جا ملے۔اگر انسان اللہ اکبر کہہ کر امام کو دوسری رکعت کے رکوع میں پا لے تو وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت اور پڑھے،یہ اعتماد کرتے ہوئے کہ اس نے رکوع میں مل کر ایک رکعت پا لی ہے۔[3]
امام ابوحنیفہ اور ابن حزم رحمہما اللہ کے نزدیک یہ ہے کہ امام کو نماز میں سلام سے پہلے پا لینا کافی ہے۔میرے نزدیک جمہور کا قول راجح ہے۔اس کی دلیل حجرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ:
|