"جس نے امام کے ساتھ ایک رکعت پا لی وہ اس کے ساتھ ایک اور ملا لے۔"[1]
ان حضرات کا استدلال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ہے:
"مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الصَّلاةِ،فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلاةَ"
"جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی اس نے نماز پا لی۔" [2]
یہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔اور صحیحین میں یہ بھی آیا ہے کہ:من أدرك ركعة أدرك الصلاة "جس نے ایک رکعت پا لی،اس نے نماز پا لی۔" [3]
ان روایات کا مفہوم مخالف (بدلیل خطاب) یہ ہے کہ جو ایک رکعت سے کم پائے اس نے نماز نہیں پائی۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ مفہوم مخالف نہیں لیتے ہیں،کیونکہ ایک دوسری حدیث کے الفاظ اس مفہوم کے خلاف ہیں۔صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم اقامت سنو تو نماز کی طرف چل دو،سکون اور وقار اختیار کرو،جلدی مت کرو،تو جو پا لو وہ پڑھ لو،اور جو رہ گئی ہو اسے پورا کرلو۔" [4]
اس حدیث میں آپ نے نماز کے پا لیے جانے والے حصے کو "صلاۃ" فرمایا ہے۔الغرض امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے۔(محمد بن عبدالمقصود)
سوال:اگر کوئی عورت اپنے ایام حیض میں حیا کے باعث نماز پڑھے تو کیا یہ جائز ہے؟
جواب:حائضہ کے لیے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
|