کو زندہ کرنے والے اور فراموش شدہ نیکیوں کو یاد کرانے والے کو ان تمام لوگوں کے عمل کا اجر بھی ملے گا جو اس کے بعد ان پر عمل کریں گے ۔ اسی طرح کسی نے اس کے برعکس برائی میں پہل کی یا اس کا کسی جگہ آغاز کیا تو بعد میں اس کو دیکھ کر برائی کے مرتکبین کے گناہوں کا بوجھ بھی اس پہل کرنے یا آغاز کرنے والے کو ملے گا۔ اس مفہوم کی تائید درج ذیل وجوہ سے ہوتی ہے :
اولاً: اس فرمان رسول ’مَنْ سَنَّ …‘کے سیاق اور پس منظر سے یہ مفہوم بالکل واضح ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد اس موقع پر فرمایا تھا جب کچھ اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جن پر تنگ دستی اور ضرو رت مندی کے آثار ظاہر تھے تو آپ نے ان کی یہ حالت دیکھ کر لوگوں کو صدقے کی ترغیب دی تاکہ ان کی کچھ مدد ہوسکے لیکن لوگوں نے اس معاملے میں تساہل اور سستی کا مظاہرہ کیا جس کے اثرات آپ کے چہرے پر نظر آرہے تھے، پھر ایک انصاری چاندی کی ایک تھیلی لایا، پھر دوسرا آیا حتیٰ کہ پھر ایک قطار لگ گئی ، یہ دیکھ کر آپ کا چہرۂ مبارک خوشی سے چمک اٹھا تو آپ نے فرمایا: ’’جس نے اسلام میں اچھا طریقہ نکالا، پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا…۔‘‘[1]
اس سیاق میں ’’ اچھا طریقہ نکالنے ‘‘ سے مراد بدعت کی ایجاد نہیں بلکہ اسلام میں ثابت شدہ مسئلے میں پہل کرنا ہے جس سے لوگوں کو ترغیب ملے۔
صدقہ کرنا اچھا عمل ہے، اسلام نے اس کی ترغیب دی ہے۔ اس انصاری صحابی نے صدقہ کرنے میں پہل کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اچھا طریقہ نکالنے سے تعبیر فرمایا،
اس لیے کہ دوسرے لوگ اس میں متأمل تھے ، اس کو دیکھ کر دوسروں کو ترغیب ملی اور وہ
|