’’ تو جس شخص نے لیلۃ القدر کا قیام اس کی تلاش و جستجو میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت کرکے کیا، اور پھر یہ رات اُس کے مقدر میں بھی کردی گئی تو اُس کے سابقہ اور آئندہ والے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ ‘‘[1] یہاں ان احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے موجب ’’ فَیُوَاِقُھَا اور ثُمَّ وُفِّقَتْ لَہُ ‘‘ کی قید کا کیا یہ معنی ہے کہ ایسے آدمی کے لیے جاگتے ہوئے اس رات کا کشف ہوجاتا ہے اور وہ بعض خوارق عادت افعال کو دیکھ لیتا ہے؟ یا وہ شب قدر کو کسی علامت کے ذریعے کہ جس سے اس رات کی پہچان ہوتی ہو جان جاتا ہے؟ یا کسی دلیل کی ترجیح کی بنیاد پر اُسے خبر ہوتی ہے جیسے کہ ستائیسویں رات ہے؟ یا شب قدر اُس کے قیام کے عین مطابق ہوتی ہے، اگرچہ اُسے اس کا علم نہ بھی ہو؟ جواب:… اس ضمن میں قابل اختیار موقف وہی ہے جسے امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی اور حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہما اللہ نے اپنی نظر میں راجح قرار دیا ہے۔ اور وہ یہ کہ یہاں جس مطابقت و موافقت کا ذکر ہورہا ہے(کہ یہ رات قیام کرنے والے مومن آدمی کی عبادت کے مطابق و موافق ہو۔)تو |