اس سے مراد اس بات کا علم و ادراک ہے کہ یہی لیلۃ القدر ہے۔ چنانچہ آدمی اس رات قیام کرکے اس عظیم ترین اجر و انعام کو حاصل کرلیتا ہے کہ جس کا اُس سے وعدہ کیا گیا ہے۔ اور اس رات کے حصول کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ اس آدمی کو خوارق کے دیدار سے مختص کردیا جائے۔(کہ خوارق عادت کوئی نشانی دیکھے گا تو اسے لیلۃ القدر ملے گی ورنہ نہیں۔ ایسی کوئی شرط نہیں ہے۔)اور یہ بات اُس شخص کے لیے جو لیلۃ القدر کی تلاش کے لیے قیام کرے، اس کے لیے حصول ثواب کے عدم انکار کے ساتھ بھی مختص ہے، اگرچہ اس کو شب قدر کا علم نہ ہوسکے یا اس کے قیام و عبادت کے مطابق و موافق یہ رات ہو یا نہ ہو۔ یعنی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ جس آدمی کو لیلۃ القدر کا علم نہ ہو یا یہ رات اُس کی عبادت کے عین مطابق و موافق نہ ہوئی، تو اُسے اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ اس کا بھی ہم انکار کرتے ہیں۔ بلکہ گفتگو تو ہورہی ہے ایک وعدہ شدہ معین ثواب کے حصول کی اور وہ ہے ایسے قیام کرنے والے شخص کے سابقہ تمام گناہوں کی مکمل مغفرت۔ تو یہ موعود بہ اجر و ثواب یقینا ہر اُس شخص کو ملے گا جو لیلۃ القدر کی جستجو میں اس کا قیام کرے گا، اور پھر علی سبیل کرامت اس کو اس رات کا کشف ہوجائے۔ مگر موعود بہ اجر و ثواب کے حصول میں اس کشف و ادراک پر اعتماد نہیں کیا جائے گا۔(کہ شب قدر کا |