سبب بن جاتا ہے اور یہ بات تزکیۂ نفس کے لیے اور پھر تزکیۂ نفس کے ذریعے عالی المرتبت ہونے کی طرف کس قدر پرزور دعوت دینے والی ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ، فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِيْ أَنْ یَّدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ۔))[1] ’’ جو آدمی جھوٹ بولنا اور اُس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا، اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ شخص اپنا کھانا، پینا چھوڑے رکھے۔ ‘‘ غور و فکر کیجیے! مجرد ایسی بات کرنے سے کہ جس میں جھوٹ ہو روزے کی مشقت، تکلیف برداشت اٹھاکر بھی آدمی اجر و ثواب سے کیسے دور ہوگیا۔ یا کسی کا حق سلب کرکے یا باطل کو ثابت کرکے بھی روزے دار اپنی روزے والی مشقت کے اجر سے محروم ہوگیا۔(تو یہ کس قدر نقصان اور خسارے والی بات ہے؟) ۲:بڑھ چڑھ کر سخاوت کرنا۔ رمضان المبارک میں جتنی خرچ کرنے کی فردی جہتیں ہیں اُن پر خرچ |