و فکر کرکے روزے دار آدمی عقیدۂ توحید کو نہایت مضبوط کرلیتا ہے۔)اسی طرح اُس کی سماعت چغلی، غیبت، جھوٹ اور فحش کلامی سننے سے(اللہ سے ڈر کر)بچی رہتی ہے۔ بلکہ وہ قرآن کی تلاوت اور علمی دروس سننے کے لیے زیادہ متوجہ ہوتا ہے۔ یہی مثال اُس کے ہاتھوں اور پیروں سے کام لینے کی ہے۔ بلکہ جسم کے تمام دیگر اعضاء کی۔(کہ اُنہیں روزے دار مومن آدمی اللہ کو خوش کرنے کے لیے استعمال کرے، اُسے ناراض کرنے کے لیے نہیں۔)چنانچہ اللہ عزوجل کا ارشادِ گرامی قدر ہے: ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا o یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا o﴾ (الاحزاب:۷۰۔۷۱) ’’ مسلمانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور سیدھی(صحیح)بات کہو(ایسا کروگے تو)اللہ تعالیٰ تمہارے کام بنادے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کے کہے پر چلے اُس نے بڑی مراد پائی۔ ‘‘ دیکھ لیجیے! سچی، سیدھی بات کہنے پر عمل کی اصلاح کیسے مترتب ہوتی |