زبان پر غالب آجاتی ہے۔(آدمی خاموشی کو پسند کرنے لگتا ہے اور سوچ سمجھ کر گفتگو کرنے لگتا ہے۔)اور وہ بدسلوکی و غلط کاری کا سامنا نہیں کرتا بلکہ اپنے روزے کو یاد رکھتے ہوئے ایسی بری حرکتوں کو حقیر سمجھ کر انھیں چھوڑ دیتا ہے۔ چنانچہ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ، فَلَا یَرْفُثْ وَلَا یَجْھَلْ، وَإِنِ امْرُئٌ قَاتَلَہُ أَوْ شَاتَمَہُ فَلْیَقُلْ: إِنِّيْ صَائِمٌ، مَرَّتَیْنِ …الخ۔)) ’’ روزہ(گناہوں اور جہنم سے)ڈھال، سیر ہے۔ تو روزے دار بحالت صوم فحش باتیں نہ کرے، نہ جہالت کی باتیں۔ اگر کوئی آدمی اس سے لڑے یا اسے گالی بکے تو دوبار کہہ دے: میں روزے سے ہوں۔ ‘‘[1] باقی اعضاء کے بارے میں بھی ایسا ہی کہو۔ روزے دار اپنی نگاہ کو حرام سے بھی بڑھ کر قابل مذمت چیز کی طرف دیکھنے سے روک کر اُسے نیچی رکھنے والا ہوتا ہے۔ بلکہ وہ اپنی نظر کو قرآنِ عظیم میں اللہ کی آیات اور اس کی مخلوق کی عجائب والی نشانیوں پر متوجہ کیے رکھتا ہے۔(مخلوقات میں اللہ کی نشانیوں پر غور |