Maktaba Wahhabi

162 - 346
حالت میں)جان بوجھ کر(یہ جان کر کہ میں احرام باندھے ہوں)شکار کو مار ڈالے تو چوپائے جانوروں میں سے ویسا ہی جانور جس کو مارا ہے بدلے میں دے، تم میں سے دو معتبر شخص اس کو ٹھہرا دیں جو نیاز کے طور پر کعبے کو بھیج دیا جائے۔ یا کفارہ دے مسکینوں کو کھانا کھلائے یا جتنے مسکینوں کا کھانا ہے اتنے روزے رکھے تاکہ وہ اپنے کیے کی سزا چکھے۔(اپنی بے ادبی کا وبال اُٹھائے)جو ہوچکا وہ تو اللہ نے معاف کر دیا(اب اسکا بدلہ دینا ضروری نہیں)اور جو کوئی(اس حکم کے بعد)پھر ایسا کرے۔‘‘ بھائی قاری محترم! آپ ذرا عور تو کیجیے! اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس آی کریمہ میں تسلسل والی شرط کے بغیر روزوں کا ذکر مطلق طور پر کیسے فرمایا ہے؟(ایک تو یہ دلیل ہوئی نص صریح سے اور دوسری دلیل یہ ہے کہ)تمام فقہاء کرام(جزاھم اللہ خیراً)اس بات پر متفق ہیں کہ حرم کی حد میں کسی شکار کو تنگ کرنا حرام ہے۔ چاہے کوئی حج یا عمرہ کے مناسک ادا کرنے کے لیے احرام باندھے ہوئے ہو یا چاہے احرام کے بغیر ہو۔ کسی بھی صورت میں حد حرم کے اندر کسی بھی جانور یا پرندے کا شکار نہیں کیا جائے گا، نہ ہی اُسے زخمی کیا جائے گا اور نہ ہی اُسے تکلیف دی جائے گی، نہ اُس پر قابو پایا جائے گا اور نہ ہی
Flag Counter