وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o﴾(البقرۃ:۱۹۶) ’’ اور حج اور عمرے کو اللہ کے لیے پورا کرو پھر اگرتم(بیماری یا دشمن کی وجہ سے)روکے جاؤ تو جو میسر ہو قربانی بھیجو۔ اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے اپنے سر نہ منڈواؤ، اگر تم میں کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہو(تو بال اتارنے کا)فدیہ دینا چاہیے، روزہ یا خیرات یا قربانی پھر جب تم کو خاطر جمع ہو(یعنی بیماری نہ رہے دشمن کا خوف جاتا رہے)اور کوئی عمرے کو حج سے ملا کر تمتع کرنا چاہے تو جیسے میسر آئے قربانی کرے پھر اگر قربانی کا مقدور نہ ہو تو تین روزے حج(کے دنوں)میں رکھ لو اور سات جب لوٹ کر آؤ یہ پورے دس ہوئے۔ یہ حکم(یعنی تمتع جائز ہونا یا تمتع میں قربانی یا روزے واجب ہونا)اس شخص کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے پاس نہ رہتے ہوں اور اللہ سے ڈرو اور جانے رہو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔‘‘ |