Maktaba Wahhabi

54 - 122
نیت و ارادے پر اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھی جا سکتی ہے۔اُمید کی بات اس لیے کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی و اتفاقی افعال کو شریعت نہیں بنایا اور نہ ہی کسی نص میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی و اتفاقی افعال کی اتباع کا حکم دیا ہے اور نہ ہی ان افعال کی اتباع پر ثواب کا کوئی وعدہ کیا ہے۔اس لیے یقینی طور پر یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ان افعال کی اتباع پر ثواب دیں گے ‘ایک دعویٰ ہے جس کے لیے کوئی دلیل چاہیے۔اس کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امامہ بنت زینبؓ‘کو اپنی گردن پر بٹھا کر جماعت کروائی اور یہ ایک اتفاقی امر تھا۔اب اگر کوئی امام صاحب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں آپؐ‘ کی اقتداء کرتے ہوئے ایسا کرتے ہیں تو کیاانہیں اس عمل کا ثواب بھی ہو گا؟زیادہ سے زیادہ یہی بات کی جا سکتی ہے کہ امام صاحب کے اس عمل پر ان کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق کے اظہارکے جذبے پر ثواب ملنے کی امید ہے۔اس عمل میں آپؐ‘ کی اقتداء پر ثواب اگر ایک یقینی امر ہوتا تو سب صحابہ ؓ یہ کام کرتے‘ کیونکہ وہ نیکیوں کے معاملے میں بہت حریص تھے ‘لیکن کسی ایک بھی صحابیؓ کے بارے میں مروی نہیں ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں اس فعل کو سنت سمجھتے ہوئے کیا ہو۔امام مسلمؒ جب اس روایت کو اپنی صحیح میں لائے ہیں تو امام نوویؒ نے اس پر’’جوازحمل الصبیان فی الصلاۃ‘‘ کے عنوان سے باب باندھا ہے۔یعنی اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں یہ فعل جائز ہے۔اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر سوار ہوئے اور یہ ایک اتفاقی امر تھا ‘ اگر گدھے پر سواری سنت ہوتی یا اس پر سواری کرنے میں ثواب ایک یقینی امر ہوتا تو تمام صحابہؓ یہ کام کرتے۔لیکن اگر کوئی شخص اس بات کا دعویٰ کرتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتفاقی افعال بجائے خود اور اُن میں آپ کی پیروی یقینی طو رپر اجر و ثواب کا موجب ہے تو یہ درست نہیں ہے۔امام ابن تیمیہؒ ؒ لکھتے ہیں: وکذلک ابن عمر کان یتحری أن یسیر مواضع سیر النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم و ینزل مواضع منزلہ‘ ویتوضأ فی السفر حیث رآہ یتوضأ‘ و یصب فضل مائہ علی شجرۃ صب علیھا‘ ونحو ذلک مما استحبہ طائفۃ من العلماء ورأوہ مستحبا‘ و لم یستحب ذلک جمھور العلماء‘ کما لم یستحبہ و لم یفعلہ أکابر الصحابۃ کأبی بکر و عمر و عثمان و علی وابن مسعود و معاذ بن جبل و غیرھم لم یفعلوا مثل ما فعل ابن عمر‘ و لو رأوہ مستحبا لفعلوہ کما کانوا یتحرون متابعتہ و الاقتداء بہ(۱۰۸) ’’اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمرؓاس بات کی کوشش کرتے تھے کہ جہاں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہواہے وہاں سے گزریں اور جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کیا وہ بھی وہاں قیام کریں اور جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا وہ بھی وہاں وضو کریں اور جس درخت پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وضو کا باقی ماندہ پانی ڈالا وہ بھی اسی درخت پر اپنے وضو کا باقی ماندہ پانی ڈالیں۔اس کے علاوہ اور بھی
Flag Counter