Maktaba Wahhabi

89 - 122
قبول کرنے کا اصول بناتے ہیں تو پھرا نہیں وہ تمام ضعیف روایات بھی قبول کرنی پڑیں گی جو شرک و بدعات اور توہمات و خرافات کی تعلیمات پر مبنی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کو قبول کر لیا جائے ‘تو پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ کاش!یہ حضرات ضعیف حدیث پر مبنی کوئی کتاب اٹھاکر دیکھ لیتے تو انہیں احساس ہوتا کہ ضعیف حدیث کے نام پر کیسی کیسی بدعات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔ائمہ سلف نے بہت سی ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں صرف ضعیف یا موضوع روایات کو جمع کیا گیا ہے اور ہمارے نزدیک ان کتب کی تالیف میں ضعیف و موضوع روایات سے باخبر کرنے کے علاوہ مؤلفین کے پیش نظر ایک اور مقصد یہ بھی تھا کہ ضعیف و موضوع روایات سے ثابت ہونے والی خرافات کی ایک تصویر پیش کی جا سکے تا کہ صحیح احادیث سے ثابت شدہ دین اسلام اور اس دینِ خرافات کے زمین و آسمان جیسے فرق کو واضح کیاجائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر متذکرہ بالا ضعیف روایت کو بطور دلیل قبول بھی کر لیا جائے تو پھر بھی اس میں فجر کے بعد سونے کی نہی نہ تو حرمت کے لیے ہے ‘اور نہ ہی کراہت کے لیے ہے بلکہ یہ ’’ارشاد‘‘ ہے‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت سے حد درجہ محبت کی وجہ سے بعض اوقات ان کے دنیاوی معاملات میں بھی ان کو کوئی بات بطور مشورہ بیان کر دیتے تھے جس کا دین سے کوئی تعلق نہ ہوتا تھا۔لہٰذ ایہ حدیث بیانِ ا رشاد ہے نہ کہ بیانِ شرع۔ اس ساری بحث سے ہمارا مقصود قطعا ً یہ نہیں ہے ہم فجر کے بعد سونے کو پسند کرتے ہیں یا اس کے حامی ہیں ‘ ہمارے نزدیک فجر کے بعد سونا ایک ناپسندیدہ فعل ہے ‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رات سونے کے لیے بنائی ہے نہ کہ دن‘لیکن اگر کوئی شخص فجر کے بعد سونے کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی قرار دے گا تو ہمارے نزدیک یہ شخص ایک ایسی چیز کو سنت یا دین قرار دے رہا ہے جو سنت یا دین نہیں ہے ‘اور ایسے شخص کا رد کرنا اور دین اسلام کو اس قسم کی آلائشوں سے پاک کرنا علماء کا بنیادی فریضہ ہے ‘تاکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی ایسی چیز کی نسبت نہ ہو جو انہوں نے نہ کہی تھی اور نہ اس کوچا ہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقاریر تقریر سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی کام ہوا ہو اور آپؐ نے اس پر خاموشی اختیار کی ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کو دیکھ کر خاموشی اختیار کرنا اس کے جواز کی علامت ہے۔محمد بن المنکدر ؒفرماتے ہیں: رَاَیْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ رضی اللّٰہ عنہ یَحْلِفُ بِاللّٰہِ اَنَّ ابْنَ الصَّائِدِ الدَّجَّالُ‘ قُلْتُ:تَحْلِفُ بِاللّٰہِ؟قَالَ اِنِّیْ سَمِعْتُ عُمَرَ یَحْلِفُ عَلٰی ذٰلِکَ عِنْدَ
Flag Counter