’’یہ کلام فلاں کی تخلیق [گھڑا ہوا]ہے۔‘‘یعنی جھوٹی بات ہے۔
حاصل کلام ! اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی اس قرآن کے پیش کرنے پر قادر نہیں ۔
پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس دعوی پر کئی دلائل پیش کیے ہیں:
پہلی حجت:… اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{ وَ لٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ } [یونس ۳۷]
’’ لیکن تصدیق ہے اس کی جو اس سے پہلے ہے۔‘‘
اس آیت سے حجت [یا دلیل ] لینے کی کئی وجوہات ہیں:
اوّل: …حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پڑھے لکھے نہیں تھے؛ اور نہ ہی آپ نے تعلیم حاصل کرنے کے لیے کسی دوسرے شہر کا کوئی سفر کیا۔اور مکہ مکرمہ علماء کا شہر[علمی مرکز] نہیں تھا۔ اور نہ ہی یہاں پر علمی کتابیں پائی جاتی تھیں۔ لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ قرآن لے کر آئے۔ اور اس قرآن میں پرانے لوگوں کے قصے بھی تھے۔ آپ کی قوم کے لوگ آپ سے بہت زیادہ عداوت رکھتے تھے۔ اگر یہ قصے تورات اور انجیل کی تعلیمات کے مطابق نہ ہوتے تو یہ لوگ ضرور ان پر جرح و قدح کرتے اور طعنہ زنی کی انتہاء کر دیتے اور آپ سے یہ بات کہہ دیتے کہ: ’’ آپ جیسے یہ قصہ بیان کررہے ہیں ؛ اصل میں یہ ایسے نہیں ہیں۔‘‘
٭ جب ان کی دشمنی اور قرآن میں طعنہ کرنے اور اس کی اصل شکال بگاڑنے کی انتہائی حرص کے باوجود ان میں سے کوئی ایک ایسا نہیں کہہ سکا ؛ تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ آپ نے یہ قصے ویسے ہی بیان کیے ہیں جیسے تورات اور انجیل میں بیان ہوئے ہیں۔ حالانکہ آپ نے یہ کتابیں نہ دیکھیں نہ پڑھیں۔
اور نہ ہی کسی ایک کی شاگردی میں رہے۔تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے یہ باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی وحی کی روشنی میں بتائی ہیں۔
دوسری حجت:…اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی سابقہ کتابیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر دلالت کرتی ہیں۔ اور یہ کچھ سورت بقرہ کی اس آیت کی تفسیر میں بیان ہوا ہے:
|