Maktaba Wahhabi

65 - 277
اس میں دو باتیں ہیں : پہلی بات:…اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:{ اَنْ یُّفْتَرٰی}’’کہ اسے گھڑ لیا جائے ‘‘تقدیر مصدر میں ہے۔اس کا معنی یہ ہے کہ: ’’یہ کلام ہر گز غیر اللہ کی طرف سے گھڑا ہوا نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ کسی بات پر زور دیکر کہتے ہیں : یہ تو صرف جھوٹی بات ہے۔ دوسری بات:… کہاجاتا ہے کہ یہاں پر کلمہ : { اَنْ } لام کے معنی میں آیا ہے۔ اور تقدیر عبارت کے طورپر یوں ہوگا کہ:’’یہ قرآن ہر گز ایسا نہیں ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی [اپنی طرف سے ]جھوٹ گھڑ لائے۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {وَ مَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً } [التوبۃ ۱۲۲] ’’اور مومن کے لیے ایسا نہ تھا کہ سبھی نکل جائیں۔‘‘ اوراللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ } [آل عمران ۱۷۹] ’’جس حال میں تم ہو اسی پر اللہ ایمان والوں کو نہ چھوڑے گا جب تک کہ پاک اور ناپاک الگ الگ نہ کر دے اور نہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے کہ تمہیں غیب سے آگاہ کر دے۔‘‘ یعنی ان کے لیے ہر گز مناسب نہ تھا کہ وہ ایسا کریں۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اس قرآن کے ساتھ ہر گز یہ مناسب نہیں کہ اسے جھوٹ گھڑ لیا جائے۔یعنی اس کے اوصاف کوئی ایسے اوصاف نہیں ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑا جاسکتا ہو۔کیونکہ جھوٹ گھڑا ہوا کلام بشر کی اپنی تخلیق ہوتا ہے۔جبکہ قرآن ایسا معجزہ ہے جس کے پیش کرنے پر بشریت قادر نہیں ہے۔ افتراء: یہ فریہ سے ہے۔ [کہا جاتا ہے] فریت الادیم ‘‘جب آپ اسے کاٹنے پر قادر ہوں۔ پھر یہ لفظ جھوٹ کے لیے استعمال ہونے لگا۔ جیسا کہا جاتاہے:
Flag Counter