Maktaba Wahhabi

64 - 277
میرا کلام تمہاری زبان جیسا ہے۔ پس تم بھی اس قرآن کی مانند کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔‘‘ [الطبری۲؍۱۱۸] یہاں پر امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے کافی لمبا کلام کیا ہے؛ آپ فرماتے ہیں : ’’اس میں کئی مسائل ہیں: پہلا مسئلہ:جان لیجیے کہ : جب ہم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر شروع کی : {وَ یَقُوْلُوْنَ لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ } [یونس ۲۰] ’’ اور کہتے ہیں اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی؟‘‘ ہم نے یہ بیان کیا تھا کہ : ان لوگوں نے ایسی باتیں کی تھیں۔ کیونکہ ان کا اعتقاد تھا کہ قرآن کوئی معجزہ نہیں ہے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ کلام اپنی طرف سے گھڑ کر ایجاد کر لائے ہیں۔پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کلام کے بہت سارے جوابات ذکر کیے۔اور یہ بیانات اسی ترتیب کے مطابق بڑھتے چلے گئے جس کی شرح اور تفصیل ہم نے بیان کر دی ہے؛ یہاں تک کہ یہ مقام آگیا۔ پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس مقام پر واضح کردیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قرآن لاکر پیش کرنا اللہ تعالیٰپر افتراء پردازی[جھوٹ اور من گھڑت ] نہیں؛بلکہ یہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ وحی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس مؤقف کی درستگی پر دلیل پیش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰیہُ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ } [یونس ۳۸] ’’یا وہ کہتے ہیں:یہ گھڑ لیا ہے؟فرمادیں: توتم اس جیسی ایک سورت لے آؤ۔‘‘ یہ اس کلام کے معجزہ اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہونے کی دلیلہے؛کہ افتراء پردازی اور تخلیق کاری سے مبرا اور پاک ہے۔ ان آیات کی تنظیم میں یہی صحیح ترتیب ہے۔‘‘ دوسرا مسئلہ : …اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {وَ مَا کَانَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰی } [یونس ۳۷] ’’اور یہ قرآن ہرگز ایسا نہیں کہ اسے گھڑ لیا جائے۔‘‘
Flag Counter