Maktaba Wahhabi

62 - 277
یعنی : تو پھر انہیں چاہیے کہ ایسا کلام کہیں سے لے آئیں جس میں قرآن کی اغراض میں سے کسی غرض کے بیان کی خاصیت و مشابہت ہو؛ نہ کہ فقط خبریں ہوں۔ اوریہ بھی جائز ہے کہ یہاں پر ساری گفتگو کااطلاق اخبار پر ہو رہا ہو۔ تو مطلب یہ ہوگا کہ پھر قرآن کے قصوں جیسے قصص لاکر پیش کریں۔ تو یہ بطور تنزلی کے ہوگا۔ اس لیے کہ سابقہ خبریں دینا متکلم کے لیے کوئی اپنی ایجاد کردہ غرض پیش کرنے کی نسبت زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہ لوگ کہا کرتے تھے کہ: ’’قرآن پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ -جس میں ماضی کی امتوں کے احوال بتائے گئے ہیں-؛ تو انہیں چاہیے کہ اس جیسی خبریں [یا قصے] لاکر پیش کریں۔ اس لیے کہ قرآن میں موجود معارف و شرائع اوردلائل کی مانند کلام پیش کرنا کسی کے بس کا کام نہیں۔ کیونکہ یہ بات تو جو بھی قرآن سنتے تھے وہ سارے لوگ یہ سمجھتے تھے۔ یہاں پر مثال کا معنی یہ ہے کہ: ایسا کلام جو فصاحت و بلاغت میں قرآن کے ہم مثل یا ہم پلہ ہو؛ کیونکہ یہ ایسی خصوصیات ہیں جنہیں اہل عرب کلام سنتے ہی سمجھ جاتے ہیں۔ جب کہ ان کی طبائع اس جیسے کلام کا احاطہ اپنے کلام میں نہیں کرسکتیں۔‘‘ [التحریر والتنویر ۱؍۴۱۷۵] ۳۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {وَ مَا کَانَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰی مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَ تَفْصِیْلَ الْکِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ (۳۷) اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰیہُ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ} [یونس ۳۷۔۳۸] ’’اور یہ قرآن ہرگز ایسا نہیں کہ اللہ کے غیر سے گھڑ لیا جائے اور لیکن اس کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے ہے اور رب العالمین کی طرف سے کتاب کی تفصیل ہے، جس میں کوئی شک نہیں۔یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے؟ کہہ دے تو تم اس جیسی ایک سورت لے آ اور اللہ کے سوا جسے بلاسکو بلا لو، اگر تم سچے ہو۔‘‘ علامہ طبری رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
Flag Counter