Maktaba Wahhabi

61 - 277
مساوات ثابت ہے۔ اگر قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام ہے تو عرب کے بعض خاص اہل فصاحت و بلاغت اس جیسے کلام کی تالیف پر قادر ہوسکتے ہیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے انہیں چیلنج کیا کہ اس قرآن جیسا کلام لاکر پیش کریں تو اس وقت ان میں ان کے بلغاء ؛ خطباء اور شعراء موجود تھے ؛ اور یہ تمام ملت کفر پر ایک تھے۔ ان لوگوں کا قرآن جیسا کلام پیش کرنے سے عاجز آجانا اس بات کی دلیل تھی کہ بشریت قرآن کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ سورت ہود میں فرماتے ہیں: {اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰاہُ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ، فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللّٰہِ وَ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ، } [ہود ۱۳۔۱۴] ’’یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے۔ فرمادیں: پھر اس جیسی دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ؛ اور اللہ کے سوا جسے بلاسکتے ہو بلالو، اگر تم سچے ہو۔پس اگر وہ تمھاری بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ یہ صرف اللہ کے علم سے اتارا گیا ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، تو کیا تم حکم ماننے والے ہو؟‘‘ اوراللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {فَاِنَّہُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَ لٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ} [الانعام ۳۳] ’’ تو بیشک وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے؛ لیکن ظالم اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ لے آؤ: لے آنے سے مراد کسی دوسری جگہ سے لانا ہے۔اس کے لیے یہ فعل اختیار کیا گیا ؛یہ نہیں کہا گیا کہ: ’’اس جیسا کلام تم بھی کہو؛ یا اس طرح کی چیز پیش کرو۔ اس لیے کہ وہ خود تواس جیسا کلام پیش کرنے سے معذوری ظاہر کرچکے تھے؛ اب اگر کسی دوسرے سے ایسا کلام لاکر پیش کرسکتے ہیں تو ایسا بھی کرلیں۔
Flag Counter