Maktaba Wahhabi

60 - 277
درحقیقت ان کا کوئی ایمان ہی نہیں ہے کہ وہ اس حق کی تصدیق کریں جو ان کے رب سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ان کے پاس آپہنچا ہے۔ اورپھر یہ فرمانا کہ: {فَلْیَاْتُوا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖ } [الطور] ’’ توپھر ایسا کلام بنا لائیں۔‘‘یعنیاللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ :پھر جن مشرکین کا یہ دعوی ہے ؛انہیں چاہیے کہ اس قرآن جیسا کلام پیش کریں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی زبان بھی وہی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے؛اگروہ سچے ہیں کہ یہ کلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے تخلیق کرلیا ہے؛ تو ان کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام جیسا کلام پیش کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ [الطبری ۲۷؍۱۹] علامہ ابن عاشور رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ مشرکین کا یہ کلام اس قرآن پر طعنہ زنی کے لیے تھا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت رسالت پر ایک زندہ اور قائم معجزہ ہے۔ ان کا دعوی یہ تھا کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے یہ کلام اللہ تعالیٰ پر گھڑ لیا ہے۔یہ آپ کی چالاکی کامظہر ہے۔ قرآن نے پورے زور کے ساتھ ان کے اس دعوی کو باطل ثابت کرتے ہوئے انہیں چیلنج کیا کہ وہ اس قرآن جیسی کتاب لاکر دیکھائیں۔ ارشاد فرمایا: {فَلْیَاْتُوا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖ اِِنْ کَانُوْا صَادِقِیْنَ ، } [الطور ۳۳۔۳۴] ’’ اگر یہ سچے ہیں تو انہیں چاہیے کہ ایسا کلام بنا لائیں۔‘‘ یعنی اپنے دعوی میں اگر سچے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ کلام اپنی طرف سے گھڑ لائے ہیں تو تم بھی اس جیسا کلام لاکر پیش کرو۔ اس جیسا کلام پیش کرنے سے ان کا عاجز آجانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ وجہ:اس کی وجہ یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی عربوں میں سے ایک ہیں۔ اور اسی زبان میں گفتگو کرتے ہیں جو ان کی اپنی زبان ہے۔ اور دونوں فریقوں کے مابین نظم کلام پرقدرت میں
Flag Counter