بیشک مشرکین جب یہ کہتے تھے کہ :
{ اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ } [الانفال ۳۱]
’’یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیوں کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
اس سے مراد یہ ہوتی تھی کہ یہ قرآن جو ہمیں پڑھ کر سنایا جارہا ہے۔اے محمد! یہ تو پہلے لوگوں کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں۔جو انہوں نے سابقہ امتوں کی تاریخ اور خبریں لکھ رکھی ہیں۔ گویا کہ وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ یہ کلام آپ نے بنی آدم سے ہی لیا ہے ؛ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف کوئی وحی نازل نہیں فرمائی۔
۲۔ جب ان لوگوں نے یہ خیال کیا کہ وہ بھی اس قرآن جیسا کلام پیش کرسکتے ہیں ؛ تو رب سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں چیلنج کیا ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{اَمْ یَقُوْلُوْنَ تَقَوَّلَہُ بَلْ لَّا یُؤْمِنُوْنَ ، فَلْیَاْتُوا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖ اِِنْ کَانُوْا صَادِقِیْنَ ، } [الطور ۳۳۔۳۴]
’’ کیاوہ کہتے ہیں کہ انہوں نے از خود بنا لیا ہے بلکہ یہ ایمان نہیں رکھتے ۔ اگر یہ سچے ہیں تو ایسا کلام بنا لائیں۔‘‘
امام طبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ:
{اَمْ یَقُوْلُوْنَ تَقَوَّلَہُ } [الطور]
’’ یا وہ کہتے ہیں کہ اسے از خود بنا لیا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ یہ فرمار ہے ہیں کہ ’’ کیا یہ مشرکین کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن از خود بنا لیا ہے؛ اور یہ ان کی اپنی تخلیق ہے۔‘‘
اورپھر یہ فرمانا کہ:
{بَلْ لَّا یُؤْمِنُوْنَ ،} [الطور ]
’’بلکہ وہ ایمان نہیں رکھتے۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں؛ وہ جھوٹ بولتے ہیں؛ بلکہ
|