قرآن پیش کرسکتے ہیں۔تو پھر قرآن نے ان کو چیلنج کیا کہ اس جیسا کلام لاکر دیکھائیں۔ اور پھر بڑی تاکید کے ساتھ فرمایا کہ تمام بشریت مل کر اس جیسا کلام پیش نہیں کرسکتی؛ اور نہ ہی اس جیسی دس سورتیں پیش کرسکتی ہے ؛ بلکہ ایک سورت پیش کرنا بھی ان کے بس میں نہیں ہے۔ اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَآئُ لَقُلْنَا مِثْلَ ھٰذَآاِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ } [الانفال ۳۱]
’’ اور جب ان پر ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں توکہتے ہیں یقیناًہم نے سن لیا، اگر ہم چاہیں تواس جیسا ہم بھی کہہ دیں، یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیوں کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
علامہ طبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’اللہ سبحانہ وتعالیٰفرماتے ہیں:اور جب ان -کافروں - پر ہماری کتاب کی واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ -ان لوگوں سے جن کے سینے اللہ تعالیٰ نے اس کی سمجھ کے لیے کھول دیے ہوں-جہالت اور حق سے سرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ؛ حالانکہ وہ جانتے ہیں وہ اپنے دعوی میں جھوٹ بول رہے ہیں؛ مگر پھر بھی کہتے ہیں:
{لَوْ نَشَآئُ لَقُلْنَا مِثْلَ ھٰذَآ اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ } [الانفال ۳۱]
’’ اگر چاہیں تو یقینا ہم بھی ایسا کہہ دیں، یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیوں کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
یعنی وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ قرآن جو انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے وہ پہلے لوگوں کی کہانیوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
اساطیر اسطر کی جمع ہے؛ اور اسطر سطور ایک ہی ہیں۔ اساطیر کی واحدہ اسطورۃ بھی آتی ہے جسے کہانی کہا جاتا ہے۔
|