کے تمام اسباب موجود تھے؛ تو یہ بھی خارق عادت بات ہے؛ اور یہ اس کلام کا معجزہ ہے۔
پس یہ ثابت ہوگیا کہ یہ کلام ہر لحاظ سے معجزہ ہے؛ اوریہ طریقہ ہمارے ہاں صواب کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ [تفسیر الرازی 3؍347]
حافظ امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
{ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا }
’’ سو اگر تم ایسا نہ کرو اور ہرگز نہ کرسکو گے۔‘‘
’’یہاں پر حرف ’’لن ‘‘ مستقبل میں دائمی نفی کے لیے ہے۔یعنی تم کبھی بھی ایسا ہرگز نہیں کرسکو گے۔‘‘ یہ ایک دوسرا معجزہ ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پہلے سے ہی خبر دی تھی جس میں بغیر کسی خوف و خطرہ کے قطعی اوریقینی طور پر دو ٹوک الفاظ میں بتایا گیا کہ کبھی بھی سارے زمانے میں اوررہتی دنیا تک اس قرآن کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اور پھر ایسے ہی ہوا۔ نزول قرآن کے وقت سے ہمارے آج کے اس وقت تک اس قرآن کا مقابلہ نہیں کیا جاسکا۔ اور نہ ہی بعد میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ اور کسی کے لیے اس جیسا کلام پیش کرنا کیسے ممکن بھی ہوسکتا ہے کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے؛جو کہ ہر ایک چیز کے خالق ہیں۔تو پھر خالق کا کلام مخلوق کے کلام سے مشابہ کیوں کر ہوسکتا ہے۔‘‘
جو کوئی قرآن میں غور وفکر اورتدبر کرے تو اس پر اس کے معجزانہ کلام ہونے کی کئی ایک فنی ؛ اورالفاظ و معانی کے اعتبار سے کئی ظاہری اور مخفی وجوہات ظاہر ہوں گی۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
{الٓرٰکِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ} [ہود 1]
’’الر۔ ایک کتاب ہے جس کی آیات محکم کی گئیں، پھر انھیں کھول کر بیان کیا گیا ایک کمال حکمت والے کی طرف سے جو پوری خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
|