سارے مل کر اس جیسی ایک ہی سورت پیش کرسکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تنازع تو پیدا ہو؛ مگر اس چیلنج کو قبول کرنے میں خوف ہی مسلط رہا۔ گواہوں اور فیصلہ کرنے والوں کا کام ہوتا ہے کہ شبہات کو ختم کریں؛ ایسا دلائل پیش کرنے کے بعد آخر میں ہوتا ہے۔ یہ لوگ زبان دان تھے؛ او رانہیں فصاحت و بلاغت کے قوانین سے انتہاء درجہ کی آگاہی تھی۔اور ان کی انتہائی کوشش اور چاہت تھی کہ اس قرآن کو غلط ثابت کرسکیں۔ حتی کہ اس راہ میں انہوں نے اپنے اموال اور اپنی جانیں تک پیش کر دیں۔اور آزمائش و ہلاکت کی ہر منزل تک پہنچے۔ ان کی حمیت اور سرکشی کی حد یہ تھی کہ حق بات کوقبول کرنے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہیں ہوتے تھے۔ تو پھر باطل کو کیسے قبول کر سکتے تھے۔یہ تمام امور اس بات کو واجب کرتے تھے کہ کوئی ایک بات ہی ایسی تلاش کر لاتے جو اس کلام میں قدح کا موجب ہوتی ۔جب کہ اس کا مقابلہ تو سب سے بڑی قدح تھی۔ جب وہ ایسا کچھ بھی پیش نہیں کرسکے توپتہ چلا کہ وہ اس کلام کا مقابلہ کرنے سے عاجز آگئے تھے۔ توثابت ہوا کہ قرآن کریم ان کے کلام کے برابر نہیں ہے۔ اور قرآن کے کلام اور ان کے کلام کے مابین فرق کوئی عام معمولی سا فرق نہیں ہے۔یہ فرق عمومی عادات کے برعکس بہت بڑا فرق ہے؛ جو اس یقین کو واجب کرتا ہے کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہے ……آگے چل کر آپ فرماتے ہیں:
’’…دوسرا طریقہ : یا پھر ہم یہ کہیں کہ : قرآن اس سے خالی نہیں ہوتا کہ :
یا تو یہ کلام بلاغت و فصاحت کی معجزانہ حدوں کو پار کررہا ہے؛ یا پھر ایسا نہیں ہے۔
اگر پہلی بات کو تسلیم کرلیا جائے تو اس کا معجزہ ہونا تسلیم ہوگیا۔
اور اگر ایسا نہیں؛ دوسری بات ہے؛ تو پھر اس صورت میں اس کا مقابلہ ہونا ممکن تھا۔ پھر مقابلہ ممکن ہونے کی صورت میں اس جیسا کلام نہ پیش کرسکنا؛ جب کہ اس
|