۸ ۔ جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن نازل فرمایا تو اسے صداقت نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک دلیل قرار دیا؛ اور لوگوں سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ اس قرآن کے اللہ کی جانب سے ہونے کو جھٹلاتے ہیں تو پھر وہ بھی اس قرآن جیسا کلام تیار کرلیں؛ یا اس جیسی دس سورتیں ہی کہہ لیں یا پھر ایسی ایک ہی سورت بنا لائیں۔ تاکہ یہ دلیل باطل ثابت ہو سکے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس خبر کوتاکید کے اس اضافہ کے ساتھ ذکر فرمایا کہ یہ کبھی بھی ایسا نہیں کرسکیں گے۔ توبات ویسے ہی ہوئی جیسے اللہ تعالیٰ نے خبری دی تھی۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
{وَ اِن کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّن مِّثْلِہٖ وَ ادْعُوْا شُہَدَآئَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ (23) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُہَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ(24)} [البقرۃ 23۔24]
’’ ہم نے اپنے بندے پر جو کچھ اتارا ہے اگر تمہیں اس میں شک ہو اور تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ، تم چاہو تو اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو۔سو اگر تم ایسا نہ کرسکو اور ہرگز نہ کرسکو گے، تو پھر اس آگ سے ڈروجس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ وہ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘
تو کفار میں سے کوئی ایک بھی یہ اعلان کرنے کی جرأت نہیں کرسکا کہ وہ بھی اس قرآن جیسا کہ کلام پیش کرکے اس کا مقابلہ کرے گا۔حالانکہ وہ اسلام کے خلاف جنگ اور اس کو ختم کرنے کے بڑے حریص رہے ہیں۔ پس یہ خبر اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کلام کسی بشر کا کلام نہیں ہے؛ بلکہ یہ بشریت کے خالق اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا کلام ہے۔
علامہ طبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مقصد یہ ہے کہ:
{ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا}’’ سو اگر تم ایسا نہ کرسکو‘‘یعنی اگر تم اس قرآن جیسی ایک سورت بھی بنا کر نہ پیش کرسکو؛حالانکہ تم نے اور تمہارے دوسرے مددگاروں نے
|