سے زیادہ کردیا جائے جو اس میں سے نہ ہو؛ یا پھر اس میں سے کوئی وہ چیز کمی کردی جائے جو اسی قرآن کا حصہ ہو ۔اس کے احکام اورحدود اور فرائض میں کمی کردی جائے ‘‘ اوریہاں پر ’’لہ ‘‘میں ھاء کی ضمیر کی مرجع اس ہستی کی طرف ہے جس نے یہ ذکر نازل کیا ہے۔‘‘ [تفسیر الطبری 6؍14]
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ یہ جان لیجیے کہ ایسے اتفاق کسی چیز پر نہیں ہوا؛ جیسے اس کتاب کی حفاظت پر اتفاق ہوا ہے۔اس لیے کہ اس سے پہلے کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں تحریف اور تبدیلی اور تغییر واقع نہ ہوئی ہو۔ خواہ یہ تبدیلی تھوڑی ہو یا زیادہ ۔اس کتاب کا ہر لحاظ سے کسی بھی قسم کی تبدیلی سے محفوظ رہنا؛ جب کہ ملحدین ؛ یہود و نصاری کے ہاں اس کے بہت سارے اسباب اوروجوہات کی بنا پر اس میں تبدیلی کی کوششیں ہوتی رہیں؛ یہ اس قرآن کا ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔اوراس کی خبر اللہ تعالیٰ نے بہت پہلے ہی دیدی تھی کہ یہ کتاب ہر قسم کی تبدیلی اور تحریف سے محفوظ رہے گی۔ اور اب اس وقت تک تقریباً چھ سو سال گزر چکے ہیں؛[یہ کتاب ویسے ہی محفوظ ہے]یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک غائبانہ خبر تھی جو کہ آج بھی اس کا ایک بہت زبردست معجزہ ہے۔‘‘ [تفسیر الرازی 19؍124]
میں کہتا ہوں کہ : اب ہم اس پندرھویں صدی ہجری میں جارہے ہیں۔ اور یہ کتاب ویسے ہی شیریں اور ترو تازہ ہے جیسے اس کے نزول کے وقت تھی۔اور کسی ایک کو بھی یہ ہمت نہیں ہوسکی کہ اس قرآن میں کچھ کمی یا بیشی کریں۔ حالانکہ اب عالم کتنا پھیل گیا ہے ؛ اور لوگوں کے پاس تزویر اور فنون کے مختلف وسائل آگئے ہیں۔ مگر پھر بھی …
اس قرآن کا یوں سلامت رہنا اس کا ایک آفاقی معجزہ ہے ۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔
|