دینے والوں میں آپ کا چچا ابو لہب اور اس کی بیوی بھی شامل تھی۔ان کے علاوہ دوسرے لوگ بھی تھے؛ مگر قرآنی سورت نازل ہوئی جس میں ابو لہب اور اس کی بیوی کے انجام کی خبر دئی گئی تھی کہ یہ دونوں کافر ہی مگریں اور انہیں اسلام لانے کی توفیق نصیب نہیں ہوگی۔ اوریہ کہ یہ دونوں افراد جہنمی ہیں۔ مگر ان کے امثال میں سے کسی دوسرے کے لیے ایسی کوئی خبر نہ دی گئی۔ جو کہ بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَہَبٍ وَّتَبَّ (1) مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ (2) سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ (3) وَامْرَأَتُہٗ حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ(4) فِیْ جِیْدِہَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ (5)} [المسد: ۱۔۵]
’’ ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہوگیا۔ نہ اس کے کام اس کا مال آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا۔ عنقریب وہ شعلے والی آگ میں داخل ہوگا۔اور اس کی بیوی بھی جو ایندھن اٹھانے والی ہے۔ اس کی گردن میں مضبوط بٹی ہوئی رسی ہوگی۔‘‘
کیا کسی بشر کے گمان میں یہ متوقع نہیں تھا کہ یہ دونوں بھی توبہ کرکے اسلام قبول کرلیں؛ جس طرح ان جیسے دوسرے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرکے اسلام قبول کرلیا۔ حالانکہ یہ لوگ ان آیات کے نزول کے بعد لگ بھگ آٹھ سال تک زندہ رہے۔ لیکن اللہ عزوجل غیب کا علم رکھتے تھے۔ اور انہوں نے ہی اس بارے میں خبر دی ہے۔پس یہ خبر برحق ہے۔ یہ دونوں اشخاص کفر پر مرے؛ جب کہ ان جیسے بہت سارے دوسرے لوگ مسلمان ہوگئے۔ پس یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن مجید اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف نازل کردہ ہے۔
ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’یہ سورت ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے برحق ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ آپ نے ان ہی معانی میں یہ خبر دی تھی کہ ابو لہب اور اس کی بیوی دونوں
|