صورت انھیں ان کے خوف کے بعد بدل کرامن دے گا…‘‘
یہ وعدہ پورا ہوا؛ اللہ تعالیٰ نے اپنے دن کی نصرت فرمائی؛ اسے غلبہ ملا؛ اور لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوئے۔اور انہیں ایسی مملکت نصیب ہوئی جس نے اپنے زمانے کی بڑی بڑی حکومتوں کو شکست دے دی۔
علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرما رہے ہیں کہ آپ کی امت کو زمین کا مالک اور لوگوں کا سرداربنائیں گے، ملک ان کی وجہ سے آباد ہوگا، بندگان رب ان سے دل شاد ہوں گے۔ آج یہ لوگوں سے لرزاں وترساں ہیں کل پرامن اور مطمئن ہوں گے، حکومت و سلطنت ان کے ہاتھوں میں ہوگی۔ الحمد للہ یہی ہوا بھی۔ مکہ، خیبر، بحرین، تمام جزیرہ عرب اورپورا یمن تو خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں فتح ہوگیا۔ حجر کے مجوسیوں نے جزیہ دے کر ماتحتی قبول کرلی، شام کے بعض حصوں کا بھی یہی حال ہوا۔ شاہ روم ہرقل نے تحفے تحائف روانہ کیے۔ مصر کے والی نے بھی خدمت اقدس میں تحفے بھیجے، اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس نے، عمان کے شاہوں نے بھی یہی کیا اور اس طرح اپنی اطاعت گزاری کا ثبوت دیا۔ حبشہ کے بادشاہ اصحمہ رحمۃ اللہ علیہ تو مسلمان ہی ہوگئے اور ان کے بعد کا والی حبشہ بھی مسلمان ہوگیا۔
پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محترم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی مہمانداری میں بلالیا،تو آپ کی خلافت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سنبھالی۔اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو کمزوری آگئی تھی؛ اسے ختم کیا۔ جزیرہ عرب کی حکومت کو مضبوط اور مستقل بنایا۔ اور ساتھ ہی ایک جرار لشکر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سپہ سالاری میں بلاد فارس کی طرف بھیجاجس نے وہاں فتوحات کاسلسلہ شروع کیاوہاں کے بہت سارے باشندے قتل ہوئے۔ کفر کی بیخ کنی کی گئی اور اسلامی پودے کی
|