یعنی شکست کھا کر بھاگتے وقت اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والوں کو اپنی پیٹھ دکھائیں گے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ : یہاں پر لفظ ’’دبر ‘‘ مفرد لایا گیاہے؛ اس سے مراد پوری جماعت ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے: ’’ضربنا منہم الرأس‘‘ہم نے ان کا سرمارا۔‘‘ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ان کے سروں کو قلم کردیا۔ اس لیے کہ واحد کبھی جمع کا معنی دیتا ہے۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جو فرمایاہے؛ وہ ایک سچا وعدہ ہے؛ جو کہ اہل ایمان کے ساتھ کیا گیا ہے۔ بدر کے موقعہ پر مشرکین قریش نے شکست کھائی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔‘‘ [تفسیر الطبری 27؍ 65]
۵۔ مسلمان مکہ مکرمہ میں خوف کی زندگی بسر کررہے تھے۔ اور انہیں قریش کی طرف سے طرح طرح کی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ حتی کہ کوئی ایک کھلے عام اپنے اسلام کا اظہار نہیں کرسکتا تھا۔ اورمسلمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بھی خفیہ طریقے سے ہی ملاقات کرسکتے تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے جو قرآنی آیات نازل فرمائیں؛ ان میں تین بشارتیں دی گئی تھیں۔:
اول: اللہ تعالیٰ انہیں خلفاء بنائے گا؛ اور وہ زمین میں اپنا نظام چلائیں گے۔
دوم: اللہ تعالیٰ ان کے دین کی نصرت فرمائیں گے ؛ اور دوسرے ادیان پر غلبہ دیں گے ۔
سوم: انہیں امن ملے گا؛ اور دشمن کا خوف ختم ہو جائے گا۔
یہ تینوں بشارات انتہائی سخت خوف کی حالت میں دی گئیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا …} [ النور 55]
’’ اللہ نے تم میں سے ایمان والوں اور نیکوکاروں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں زمین میں ضرور جانشین بنائے گا، جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو جانشین بنایاگیا؛اور ان کے لیے اپنے پسندکردہ اس دین کو ضرور اقتدار دے گا؛ اور ہر
|