’’اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پر رحم کرے۔‘‘
لوگوں نے کہا :’’اے اللہ کے رسول! اور کتروانے والوں پر بھی۔‘‘
آپ نے دوبارہ بھی یہی فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پر رحم کرے۔‘‘
لوگوں نے کہا :’’اے اللہ کے رسول! اور کتروانے والوں پر بھی۔‘‘
آپ نے سہ بارہ بھی یہی فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پر رحم کرے۔‘‘
لوگوں نے کہا :’’اے اللہ کے رسول! اور کتروانے والوں پر بھی۔‘‘
آخر تیسری یا چوتھی بار میں آپ نے کتروانے والوں کے لیے بھی رحم کی دعا کی؛ فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ سر کتروانے والوں پر بھی رحم کرے۔‘‘
پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:’’ بے خوف ہو کر ‘‘یعنی مکہ جاتے وقت بھی امن و امان سے ہو نگے۔ اور مکہ کا قیام بھی بے خوفی کا ہوگا۔ چنانچہ عمرہ القضا میں یہی ہوا یہ عمرہ ذی قعدہ سنہ ۷ ہجری میں ہوا تھا۔ حدیبیہ سے آپ ذی قعدہ کے مہینے میں لوٹے تو مدینہ تشریف لائے تھے۔‘‘ [تفسیر ابن کثیر7؍331]
۴۔ مسلمان بڑے کمزور تھے؛ اور انہیں کفار قریش کی طرف سے انتہائی دردناک عذاب کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ان کے پاس نہیں ہی کوئی طاقت تھی اور نہ ہی دفاعی صورت حال۔ تواللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کئی ایک آیات نازل فرمائیں ؛جن میں مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کی خبر دی گئی تھی اور مسلمانوں کو ان کے دشمنوں پر فتح کی بشارت دی گئی تھی۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
{سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ} [ القمر 45]
’’عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اوروہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔‘‘
یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنان آپ سے جنگ کرنے کے لیے جمع ہوں گے؛ لیکن وہ مغلوب ہوں گے؛ اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔
|