چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا بھی کہ:
’’ آپ نے تو ہم سے فرمایا تھا :’’ ہم بیت اللہ جائیں گے اور طواف کریں گے۔‘‘
آپ نے فرمایا:’’ یہ صحیح ہے لیکن یہ تو میں نے نہیں کہا تھا کہ اسی سال ہوگا ؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ ہاں؛ یہ تو نہیں فرمایا تھا۔‘‘
آپ نے فرمایا:’’ پھر جلدی کیا ہے ؟ تم بیت اللہ میں جاؤ گے ضرور اور طواف بھی یقینا کرو گے۔‘‘
پھر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے یہی کہا اور ٹھیک یہی جواب پایا۔
اس آیت میں جو ان شا اللہ ہے ؛ [فرمان الٰہی ہے]:
{لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہٗ الرُّؤْیَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِِنْ شَآئَ اللّٰہُ } [الفتح 27]
’’ بلا شبہ یقینا اللہ نے اپنے رسول کو خواب میں حق کے ساتھ سچی خبر دی کہ تم مسجد حرام میں ضرور بالضرور داخل ہو گے، اگر اللہ نے چاہا۔‘‘
یہ استثنا کے لیے نہیں بلکہ تحقیق اور تاکید کے لیے ہے۔
فرمان الٰہی :{ اٰمِنِیْنَ }’’ امن کی حالت میں‘‘ یعنی جب آپ مکہ میں داخل ہونگے۔
فرمان الٰہی :{ مُحَلِّقِیْنَ رُئُ وْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ}’’ اپنے سر منڈاتے اور کتراتے ہوئے۔‘‘یعنی اس پر قادر ہوتے ہوئے ؛کیونکہ عین دخول کے وقت تو سر نہیں منڈوا رہے تھے؛یہ بعد میں ایک دوسری حالت تھی۔جس وقت اپنے سر منڈائے اور کترائے۔
[ اس مبارک خواب کی تاویل کو صحابہ نے دیکھ لیا اور پورے امن و اطمینان کے ساتھ مکہ میں گئے اور وہاں جا کر احرام کھولتے ہوئے بعض نے اپنا سر منڈوایا اور بعض نے بال کتروائے]۔
صحیح حدیث میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
|