Maktaba Wahhabi

107 - 277
آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بہت سخت جانی دشمن تھے۔ لیکن جب فریقین کے مابین صلح طے پا گئی تو اب اس کا تقاضا یہی تھا کہ آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوں۔ لیکن قریش کی خیانت اور عہد نہ توڑنے کی ضمانت کیا ہوسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے یہ کی بشارت تقریباً ایک سال پہلے دے دی تھی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہٗ الرُّؤْیَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِِنْ شَآئَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ مُحَلِّقِیْنَ رُئُ وْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ لَا تَخَافُوْنَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِکَ فَتْحًا قَرِیْبًا } [الفتح 27] ’’ بلا شبہ یقینا اللہ نے اپنے رسول کو سچیخواب دکھائی کہ تم اگر اللہ نے چاہا تو مسجد حرام میں ضرور داخل ہو گے؛پر امن ، اپنے سر منڈاتے ہوئے اور کتراتے ہوئے، ڈر نہیں ہوگا ، تو اس نے وہ جانا جو تم نے نہیں جانا تو اس نے اس سے پہلے ایک قریبی فتح رکھ دی۔‘‘ یہ واقعہ ایسے ہی پیش آیا جیسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کی خبر دی تھی۔ مکہ مکرمہ میں عمرہ کے لیے داخل ہوئے؛ تین دن تک وہاں پر قیام کیا ؛ پھر وہاں سے کوچ کیا؛ لیکن کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا؛ جس کی وجہ سے کوئی غم و رنج یا تکلیف اٹھانا پڑے۔ حالانکہ مکہ مکرمہ کے باشندے اس وقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے۔ علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا کہ آپ مکہ میں گئے؛ اور بیت اللہ شریف کا طواف کیا۔ آپ نے اس کا ذکر اپنے اصحاب سے مدینہ شریف میں ہی کردیا تھا۔ حدیبیہ والے سال جب آپ عمرے کے ارادے سے چلے تو اس خواب کی بنا پر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو یقین کامل تھا کہ اس سفر میں ہی کامیابی کے ساتھ اس کی تعبیر کا ظہور دیکھ لیں گے۔ وہاں جا کر جو رنگت بدلی ہوئی دیکھی یہاں تک کہ صلح نامہ لکھ کر بغیر زیارت بیت اللہ واپس ہونا پڑا تو ان صحابہ پر نہایت شاق گذرا۔
Flag Counter