Maktaba Wahhabi

106 - 277
’’اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد۔‘‘اس میں ان لوگوں کی انتہائی رسوا کن شکست کی طرف اشارہ ہے۔ ایسی شکست کہ اس کے بعد فتح کی کوئی امید ہی نہیں تھی۔ اسی لیے مشرکین خوشی سے بغلیں بجا رہے تھے۔ پس یہاں پر یہی وعدہ کیا جارہا ہے کہ اس شکست کے بعد انتہائی قلیل مدت میں رومی دوبارہ غالب آجائیں گے۔ مشرکین کے لیے یہ بھی قرآن کا ایک چیلنج ہے۔ اور اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خارق عادت طور پراہل فارس پر رومیوں کی غلبہ لکھ دیا تھا؛ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ اور مسلمانوں کی کرامت ہے۔ اور لفظ { بِضْعِ }باء کے نیچے زیر کے ساتھ ؛ یہ بہت کم سالوں سے کنایہ ہے جن کی مدت دس سال سے تجاوز نہیں کرسکتی۔ سالوں کی تعداد مبہم رکھنے میں حکمت: اس عظیم و حکیم کے کلام کا تقاضا یہ تھا کہ اجمالی طور پر مقصود پر ہی اقتصار کیا جائے۔اور اجمال سے تفصیل کی طرف قدم نہ بڑھایا جائے۔ اس لیے کہ تفصیل اہل عقل کے ہاں ہر موقعہ پر مناسب نہیں ہوتی۔ اور اس لیے بھی تاکہ مسلمان قریب ترین مدت میں اللہ تعالیٰ سے امید قائم کیے رہیں۔ اس میں مسلمانوں کے لیے ایک انبساط اور کشادگی ہے۔ یہ آیت قرآنی معجزات کے باب سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘ [التحریر والتنویر1؍3220] ۳۔ قرآن کریم نے یہ خبر دی تھی کہ مسلمان جو مکہ مکرمہ سے اپنا دین لے کر ہجرت کر گئے تھے؛ وہ وہاں سے نکالے جانے کے بعد پھر وہاں داخل ہوں گے۔اس سے پہلے قریش نے انہیں مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ اور قرآن کریم نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ امن و امان کی حالت میں مکہ میں داخل ہوں گے۔کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہوگا؛ اور وہ بیت اللہ کی زیارت کرتے ہوئے عمرہ کریں گے۔ یہ آیات اس سال نازل ہوئیں جب قریش نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔پھر اگلے سال یہ بشارت پوری ہوئی۔حالانکہ قریش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور
Flag Counter