}؛ مومن خوش ہوں گے؛اللہ تعالیٰ کی مدد سے۔یعنی اللہ تعالیٰ مشرکین پر ان کو فتح نصیب کریں گے۔ اور اہل روم اہل فارس پر غالب آئیں گے ۔
{ یَنْصُرُ مَنْ یَّشَآئُ(5)} [ الروم ]
’’ وہ مدد کرتا ہے جس کی چاہتا ہے ؛ اللہ تعالیٰ جس کے بارے میں چاہتے ہیں اس کی دوسروں پر مدد کرتے ہیں۔‘‘ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے بدر میں مشرکین پر مؤمنین کو فتح دی ؛ اور ان کی مدد فرمائی۔
{وَ ہُوَ الْعَزِیْزُ }۔’’وہی سب پر غالب ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں سے اپنا بدلہ لینے میں بہت سخت ہیں۔ نہ ہی اس سے کوئی انہیں روک سکتا ہے؛ اورنہ ہی اس میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
{ الرَّحِیْمُ}۔’’ نہایت رحم کرنے والا۔‘‘جو کوئی توبہ کرلے؛ اور اس کی اطاعت کی طرف پلٹ آئے اسے عذاب نہ دیا جائے گا۔‘‘ یہ جو بات ہم نے کہی ہے؛ مفسرین کرام نے یہی بات کہی ہے۔‘‘ [تفسیر الطبری 21؍11]
ابن عاشور رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’یہ جس غلبہ کا قرآن میں ذکر کیا جارہا ہے؛ یہ (615ء) میں پیش آنے والی جنگ میں اہل فارس کے مقابلہ میں رومیوں کی عبرتناک شکست ہے۔ ایسے ہوا تھا کہ فارسی بادشاہ خسرو بن ہرمز نے فلسطین اور شام کے علاقے میں اہل روم پر چڑھائی کردی۔ یہ علاقے قیصر روم کی عمل داری میں واقع تھے۔پس پہلے انطاکیہ میں شکست ہوئی ؛ پھر دمشق میں۔ اہل روم کو اہل عرب کے مجاورہ علاقوں بصری اور اذرعات میں بہت عبرتناک شکست اٹھانا پڑی۔قرآن مجید میں بیان کردہ قریبی علاقے سے یہی مراد ہے کہ روم کے وہ علاقے جو بلاد عرب کے قریب تھے۔
یہاں پرالارض پر ’’ال ‘‘ تعریفی عہد کے لیے ہے۔ یعنی وہ ارض روم جس کے بارے میں گفتگو ہورہی ہے۔ یا پھر ’’ال‘‘ مضاف الیہ کے عوض میں ہے۔ یعنی ان
|