سے آپ کے دل پر پیغام باری اتارا ہے۔ ‘‘
نیز:
(فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ -إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (99) إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ (100) وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَكَانَ آيَةٍ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مُفْتَرٍ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (101) قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ )(النحل :۹۸۔ ۱۰۲)
’’قرآن پڑھتے وقت راندے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ ایمان والوں اور اپنے پروردگار پر بھروسا رکھنے والوں پر اس کازور مطلق نہیں چلتا ، ہاں اس کا غلبہ تو ان پر یقینا ہے جو اسی سے رفاقت کریں اور اسے اللہ کا شریک ٹھہرائیں اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں ، اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نازل فرماتا ہے ، اسے وہ خوب جانتے ہیں ، تویہ کہتے ہیں کہ تو تو بہتان باز ہے۔ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر جانتے ہی نہیں۔ کہہ دیجئے کہ اسے آپ کے رب کی طرف سے جبریل حق کے ساتھ لے کر آئے ہیں ، تاکہ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے ، اور مسلمانوں کی رہنمائی اور بشارت ہو جائے۔ ‘‘
چنانچہ اللہ نے جبریل علیہ السلام کا نام روح القدس اور روح الامین رکھا ہے ، اور فرمایا ہے:
(فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ (15) الْجَوَارِ الْكُنَّسِ )(التکویر:۱۵ ، ۱۶)
’’ میں قسم کھا تا ہوں پیچھے ہٹنے والے ، چلنے پھرنے والے ، چھپنے والے ستاروں کی۔ ‘‘
|